باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: Al-Kafala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2290.
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت عمر ؓ نے انھیں زکاۃ کا تحصیل دار بنا کر بھیجا۔ وہاں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کر لیا تو حضرت حمزہ ؓ نے زانی مرد سے ضمانت لی اور خود حضرت عمر ؓ کے پاس آئے۔ حالانکہ حضرت عمر ؓ اسے پہلے سوکوڑے مار چکے تھے۔ اس آدمی نے لوگوں کے الزام کی تصدیق کی اور جرم قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر پیش کیا تھا۔ حضرت جریر اور اشعت نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مرتدین کے متعلق کہا کہ ان سے توبہ کرائیں اور ضمانت لیں (کہ دوبارہ مرتد نہیں ہوں گے) چنانچہ انھوں نے توبہ کی اور ان کے کنبے والوں نے ان کی ضمانت دی۔ حضرت حماد نے کہا جس شخص نے کسی شخص (کو حاضر کرنے)کی ضمانت اٹھائی ہو، اگر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہیں ہوگا جبکہ حضرت حکم نے کہا ہے کہ وہ ذمہ دار ہوگا۔
تشریح:
(1) حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ کا واقعہ امام طحاوی ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح معاني الآثار:147/3) اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ شخصی ضمانت لی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے زانی آدمی کے متعلق شخصی ضمانت لی تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔حضرت عمر ؓ اور دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا واقعہ بھی یہاں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، چنانچہ سنن کبری بیہقی میں اس کی تفصیل ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ اذان دیتے وقت یوں کہتا ہے: (أشهد أن مسيلمة رسول الله)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلایا،مؤذن ابن نواحہ کو توقتل کردیا اور دیگر ساتھیوں کے متعلق مشورہ کیا۔ حضرت عدی بن حاتم نے کہا کہ انھیں بھی قتل کردیا جائے لیکن حضرت جریر اور اشعث نے کہا کہ ان سے توبہ کرائیں اور ضمانت لیں کہ آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:206/8، وفتح الباري:592/4) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان واقعات سے شخصی ضمانت کو ثابت کیا ہے اور اس پر مالی ضمانت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2218
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2290
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2290
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2290
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
دَین اور قرض میں فرق یہ ہے کہ خریدوفروخت میں جو چیز کسی کے ذمے ہو اسے دین کہا جاتا ہے جبکہ ایک مقررہ مدت کی ادائیگی پر روپیہ وغیرہ لینا قرض ہے۔اہل مدینہ ضامن کو زعیم، اہل مصر حمیل اور اہل عراق کفیل کہتے ہیں۔شریعت میں قرض اور دین کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت لینا جائز ہے۔
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ سے روایت ہے، کہ حضرت عمر ؓ نے انھیں زکاۃ کا تحصیل دار بنا کر بھیجا۔ وہاں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کر لیا تو حضرت حمزہ ؓ نے زانی مرد سے ضمانت لی اور خود حضرت عمر ؓ کے پاس آئے۔ حالانکہ حضرت عمر ؓ اسے پہلے سوکوڑے مار چکے تھے۔ اس آدمی نے لوگوں کے الزام کی تصدیق کی اور جرم قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر پیش کیا تھا۔ حضرت جریر اور اشعت نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مرتدین کے متعلق کہا کہ ان سے توبہ کرائیں اور ضمانت لیں (کہ دوبارہ مرتد نہیں ہوں گے) چنانچہ انھوں نے توبہ کی اور ان کے کنبے والوں نے ان کی ضمانت دی۔ حضرت حماد نے کہا جس شخص نے کسی شخص (کو حاضر کرنے)کی ضمانت اٹھائی ہو، اگر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہیں ہوگا جبکہ حضرت حکم نے کہا ہے کہ وہ ذمہ دار ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ کا واقعہ امام طحاوی ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح معاني الآثار:147/3) اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ شخصی ضمانت لی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے زانی آدمی کے متعلق شخصی ضمانت لی تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔حضرت عمر ؓ اور دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا واقعہ بھی یہاں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، چنانچہ سنن کبری بیہقی میں اس کی تفصیل ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ اذان دیتے وقت یوں کہتا ہے: (أشهد أن مسيلمة رسول الله)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلایا،مؤذن ابن نواحہ کو توقتل کردیا اور دیگر ساتھیوں کے متعلق مشورہ کیا۔ حضرت عدی بن حاتم نے کہا کہ انھیں بھی قتل کردیا جائے لیکن حضرت جریر اور اشعث نے کہا کہ ان سے توبہ کرائیں اور ضمانت لیں کہ آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:206/8، وفتح الباري:592/4) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان واقعات سے شخصی ضمانت کو ثابت کیا ہے اور اس پر مالی ضمانت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد (حمزہ) نے کہ حضرت عمر ؓ نے (اپنے عہد خلافت میں) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے (کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے) چنانچہ انہوں نے توبہ کر لی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مر جائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Umar (ra) sent him (i.e. Hamza) as a Sadaqa / Zakat collector. A man had committed illegal sexual intercourse with the slave girl of his wife. Hamza took (personal) sureties for the adulterer till they came to 'Umar. 'Umar had lashed the adulterer one hundred lashes. 'Umar confirmed their claim (that the adulterer had already been punished) and excused him because of being Ignorant. Jarir Al-Ash'ath said to Ibn Mas'ud regarding renegades (i.e., those who became infidels after embracing Islam), "Let them repent and take (personal) sureties for them." They repented and their relatives stood sureties for them. According to Hammad, if somebody stands surety for another person and that person dies, the person giving surety will be released from responsibility. According to Al-Hakam, his responsibilities continues.