باب: قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: Al-Kafala)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2291.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا ذکر کیا جس نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا تو اس نے کہا کہ گواہوں کو لاؤ تاکہ یہ خطیررقم ان کے سامنے دوں۔ قرض مانگنے والےنے کہا: اللہ کی شہادت کافی ہے۔ اس نے کہا: اچھا کوئی ضامن لاؤ تو قرض لینے والے نے کہا: اللہ کی ضمانت کافی ہے۔ اس نے کہا: تونے سچی بات کہی ہے، چنانچہ اس نے ایک متعین مدت کے لیے ایک ہزار دینار بطور قرض اس کے حوالے کردیے۔ پھر جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام پورا کر کے کوئی جہاز تلاش کرتا رہا جس پر سوار ہو کر متعین وقت پر قرض خواہ کے پاس پہنچ جائے لیکن کوئی جہاز نہ ملا۔ آخر اس نے ایک لکڑی لے کر اسے کھوکھلاکیا، پھر ایک ہزار دینار اور قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر اس میں لکھ دیا۔ اس کے بعدلکڑی کو اوپر سے بند کر کے سمندر پر آیا اور کہنے لگا: یا اللہ !تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار دینار قرض لیے تھے، اس نے مجھ سے ضمانت مانگی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت کافی ہے، چنانچہ وہ تجھ سے راضی ہو گیا اور اس نے مجھ سے گواہ بھی مانگے تھے، تو میں نے کہا تھا: اللہ گواہ کافی ہے۔ وہ تیری گواہی پر بھی راضی ہو گیا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز مل جائے تاکہ میں اس کا قرض وعدے کے مطابق ادا کردوں لیکن کوئی جہاز نہ مل سکا۔ اب میں یہ مال تیرےسپردکرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی یہاں تک وہ سمندرمیں ڈوب گئی اور وہ خود واپس چلا آیا اور اس مدت میں سواری تلاش کرتا رہا تاکہ اپنے شہر جائے۔ دوسری طرف وہ شخص جس نے قرض دیا تھا باہر نکلا تاکہ دیکھے شاید کوئی جہاز آئے اور اس کا مال لائے۔ اتنے میں اسے ایک لکڑی دکھائی دی۔ جس میں مال تھا۔ وہ اسے گھر میں جلانے کے لیے لے آیا۔ جب اسے پھاڑا تو اس میں اپنا مال اور خط پایا۔ پھر وہ شخص بھی آپہنچا جس نے قرض لیا تھا اور ایک ہزار دینار پیش کر کے معذرت کرنے لگا۔ کہ اللہ کی قسم!میں برابر جہاز کی تلاش میں رہا تاکہ تمھارا قرض ادا کردوں مگر جس جہاز میں اب آیا ہوں۔ اس سے پہلے کوئی جہاز نہ پا سکا۔ قرض خواہ نے پوچھا: کیا تونے اس سے پہلے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟ مقروض نے کہا: میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ میں جس جہاز میں آیا ہوں اس سے پہلے مجھے کوئی جہاز نہیں ملا۔ قرض خواہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تیری اس امانت کو مجھے پہنچا دیا جو تونے لکڑی میں بھیجی تھی۔ چنانچہ اب تو ہزار دینار لے کر بخوشی واپس چلا جا۔
تشریح:
(1) ایک روایت کے مطابق اس نے خط میں لکھا کہ یہ خط فلاں کی طرف سے فلاں کی جانب ہے، میں نے تیرا مال اس ضامن کے حوالے کردیا ہے جس نے میری ضمانت دی تھی۔ واقعی اس اسرائیلی مومن نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک ہزار دینار کی خطیر رقم اللہ کے حوالے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گمان کو صحیح کر دکھایا۔ (2) ان کے متعلق مزید تفصیلات کا پتہ نہیں چل سکا کہ لوگ کون تھے؟کہاں کے باشندے تھے؟اور کس زمانے سے ان کا تعلق تھا؟(3) اگرچہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب سے وابستہ ہے مگر کچھ چیزیں استثنائی طور پر وقوع پذیر ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ واقعہ ہے۔ (4) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے شخصی کفالت کو ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح وتعریف ذکر کیا ہے، اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا جاسکتا ہے اور پھر اس مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہے، نیز قرض کے متعلق گواہی اور ضمانت لی جاسکتی ہے۔ یہ تمام باتیں اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ (فتح الباري:595/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2218.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2291
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2291
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2291
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
دَین اور قرض میں فرق یہ ہے کہ خریدوفروخت میں جو چیز کسی کے ذمے ہو اسے دین کہا جاتا ہے جبکہ ایک مقررہ مدت کی ادائیگی پر روپیہ وغیرہ لینا قرض ہے۔اہل مدینہ ضامن کو زعیم، اہل مصر حمیل اور اہل عراق کفیل کہتے ہیں۔شریعت میں قرض اور دین کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت لینا جائز ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا ذکر کیا جس نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا تو اس نے کہا کہ گواہوں کو لاؤ تاکہ یہ خطیررقم ان کے سامنے دوں۔ قرض مانگنے والےنے کہا: اللہ کی شہادت کافی ہے۔ اس نے کہا: اچھا کوئی ضامن لاؤ تو قرض لینے والے نے کہا: اللہ کی ضمانت کافی ہے۔ اس نے کہا: تونے سچی بات کہی ہے، چنانچہ اس نے ایک متعین مدت کے لیے ایک ہزار دینار بطور قرض اس کے حوالے کردیے۔ پھر جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام پورا کر کے کوئی جہاز تلاش کرتا رہا جس پر سوار ہو کر متعین وقت پر قرض خواہ کے پاس پہنچ جائے لیکن کوئی جہاز نہ ملا۔ آخر اس نے ایک لکڑی لے کر اسے کھوکھلاکیا، پھر ایک ہزار دینار اور قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر اس میں لکھ دیا۔ اس کے بعدلکڑی کو اوپر سے بند کر کے سمندر پر آیا اور کہنے لگا: یا اللہ !تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار دینار قرض لیے تھے، اس نے مجھ سے ضمانت مانگی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت کافی ہے، چنانچہ وہ تجھ سے راضی ہو گیا اور اس نے مجھ سے گواہ بھی مانگے تھے، تو میں نے کہا تھا: اللہ گواہ کافی ہے۔ وہ تیری گواہی پر بھی راضی ہو گیا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز مل جائے تاکہ میں اس کا قرض وعدے کے مطابق ادا کردوں لیکن کوئی جہاز نہ مل سکا۔ اب میں یہ مال تیرےسپردکرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی یہاں تک وہ سمندرمیں ڈوب گئی اور وہ خود واپس چلا آیا اور اس مدت میں سواری تلاش کرتا رہا تاکہ اپنے شہر جائے۔ دوسری طرف وہ شخص جس نے قرض دیا تھا باہر نکلا تاکہ دیکھے شاید کوئی جہاز آئے اور اس کا مال لائے۔ اتنے میں اسے ایک لکڑی دکھائی دی۔ جس میں مال تھا۔ وہ اسے گھر میں جلانے کے لیے لے آیا۔ جب اسے پھاڑا تو اس میں اپنا مال اور خط پایا۔ پھر وہ شخص بھی آپہنچا جس نے قرض لیا تھا اور ایک ہزار دینار پیش کر کے معذرت کرنے لگا۔ کہ اللہ کی قسم!میں برابر جہاز کی تلاش میں رہا تاکہ تمھارا قرض ادا کردوں مگر جس جہاز میں اب آیا ہوں۔ اس سے پہلے کوئی جہاز نہ پا سکا۔ قرض خواہ نے پوچھا: کیا تونے اس سے پہلے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟ مقروض نے کہا: میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ میں جس جہاز میں آیا ہوں اس سے پہلے مجھے کوئی جہاز نہیں ملا۔ قرض خواہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تیری اس امانت کو مجھے پہنچا دیا جو تونے لکڑی میں بھیجی تھی۔ چنانچہ اب تو ہزار دینار لے کر بخوشی واپس چلا جا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت کے مطابق اس نے خط میں لکھا کہ یہ خط فلاں کی طرف سے فلاں کی جانب ہے، میں نے تیرا مال اس ضامن کے حوالے کردیا ہے جس نے میری ضمانت دی تھی۔ واقعی اس اسرائیلی مومن نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک ہزار دینار کی خطیر رقم اللہ کے حوالے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گمان کو صحیح کر دکھایا۔ (2) ان کے متعلق مزید تفصیلات کا پتہ نہیں چل سکا کہ لوگ کون تھے؟کہاں کے باشندے تھے؟اور کس زمانے سے ان کا تعلق تھا؟(3) اگرچہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب سے وابستہ ہے مگر کچھ چیزیں استثنائی طور پر وقوع پذیر ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ واقعہ ہے۔ (4) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے شخصی کفالت کو ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح وتعریف ذکر کیا ہے، اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا جاسکتا ہے اور پھر اس مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہے، نیز قرض کے متعلق گواہی اور ضمانت لی جاسکتی ہے۔ یہ تمام باتیں اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ (فتح الباري:595/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی صفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ (اور اس کا قرض ادا کردے) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک (اس مضمون کا) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک ( مدت مقررہ میں ) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچا دے) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینا رنکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور (یہ خیال کرکے کہ شايد وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ) ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھرانہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعور ؓ کا قول جو یہاں مذکور ہوا ہے اس کو امام بیہقی نے وصل کیا۔ اور ایک قصہ بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ کا موذن اذان میں یوں کہتا ہے أشهد أن مسیلمة رسول اللہ۔ انہوں نے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ ابن نواحہ کی تو گردن مار دی اور اس کے ساتھیوں کے باب میں مشورہ لیا۔ عدی بن حاتم نے کہا قتل کرو۔ جریر اور اشعث نے کہا ان سے توبہ کراؤ اور ضمانت لو۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے۔ ابن ابی شیبہ نے ایسا ہی نقل کیاہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے حدود میں کفالت سے دیون میں بھی کفالت کا حکم ثابت کیا، لیکن حدود اور قصاص میں کوئی کفیل ہو اور اصل مجرم یعنی مکفول عنہ غائب ہو جائے تو کفیل پر حد یا قصاص نہ ہوگا اس پر اتفاق ہے لیکن قرضہ میں جو کفیل ہو اس کو قرض ادا کرنا ہوگا۔ (وحیدی) حدیث میں بنی اسرائیل کے جن دو شخصوں کا ذکر ہے ان کی مزید تفصیلات جو حدیث ہذا میں نہیں ہیں تو اللہ کے حوالہ ہیں کہ وہ لوگ کون تھے، کہاں کے باشندے تھے؟ کون سے زمانہ سے ان کا تعلق ہے؟ بہرحال حدیث میں مذکورہ واقعہ اس قابل ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور یہاں ہر چیز ایک سبب سے وابستہ ہے۔ قدرت نے اس کارخانہ عالم کو اسی بنیاد پر قائم کیا مگر کچھ چیزیں مستثنیٰ بھی وجود پذیر ہوجاتی ہیں۔ ان ہر دو میں سے قرض لینے والے نے دل کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ محض ایک اللہ پاک ہی کا نام بطور ضامن اور کفیل پیش کر دیا۔ کیوں کہ اس کے دل میں قرض کے ادا کرنے کا یقینی جذبہ تھا۔ اور وہ قرض حاصل کرنے سے قبل عزم مصمم کر چکا تھا کہ اسے کسی نہ کسی صورت یہ قرض بالضرور واپس کرنا ہوگا، اسی عزم صمیم کی بنا پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ حدیث میں اسی لیے فرمایا گیا کہ جو شخص قرض لیتے وقت ادائیگی کا عزم صمیم رکھتا ہے اللہ پاک ضرور اس کی مدد کرتا اور اس کا قرض ادا کردیتا ہے۔ اسی لیے ادائیگی کے وقت وہ شخص کشتی کی تلاش میں ساحل بحر پر آیا کہ سوار ہو کر وقت مقررہ پر قرض ادا کرنے کے لیے قرض خواہ کے گھر حاضر ہوجائے۔ مگر اتفاق کہ تلاش بسیار کے باوجود اس کو سواری نہ مل سکی اور مجبوراً اس نے قرض کے دینار ایک لکڑی کے سوراخ میں بند کرکے اور اس کے ساتھ تعارفی پرچھ لکھ کر لکڑی کو دریا میں اللہ کے بھروسہ پر ڈال دیا۔ اس نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ لکڑی کی یہ رقم اگر اس قرض خواہ بھائی کو اللہ وصول کرا دے تو فبہا ورنہ وہ جب بھی وطن لوٹے گا اس کو دوبارہ یہ رقم ادا کرے گا۔ ادھر وہ قرض دینے والا ساحل بحر پر کسی آنے والی کشتی کا انتظار کررہا تھا کہ وہ بھائی وقت مقررہ پر اس کشتی سے آئے گا اور رقم ادا کردے گا۔ مگر وہ بھی ناکام ہو کر جا ہی رہا تھا کہ اچانک دریا میں اس بہتی ہوئی لکڑی پر نظر جاپڑی اور اس نے ایک عمدہ لکڑی جان کر ایندھن وغیرہ کے خیال سے اسے حاصل کر لیا۔ گھر لے جانے پر اس لکڑکو کو کھولا۔ تو حقیقت حال سے اطلاع پاکر اور اپنی رقم وصول کرکے مسرور ہوا چونکہ ادا کرنے والے حضرت کو وصول کرنے کی اطلاع نہ تھی وہ احتیاطا ً وطن آنے پر دوبارہ یہ رقم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور تفصیلات سے ہر دو کو علم ہوا اور دونوں بے انتہا مسرور ہوئے۔ یہ توکل علی اللہ کی وہ منزل ہے جو ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتی۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا تھا کہ اپنے اونٹ رات کو خوب مضبوط باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھو کہ اسے کوئی نہیں چرائے گا۔ گفت پیغمبر با آواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند آج بھی ضرورت ہے کہ قرض حاصل کرنے والے مسلمان اس عزم صمیم و توکل علی اللہ کا مظاہر کریں کہ وہ اللہ کی توفیق سے ضرور ضرور قرض کی رقم جلد ہی واپس کریں گے۔ وہ ایسا کریں گے تو اللہ بھی ان کی مدد کرے گا اور ان سے ان کا قرض ادا کرادے گا۔ ان دونوں شخصوں کا نام معلوم نہیں ہوا۔ حافظ نے کہا محمد بن ربیع نے مسند صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ قرض دینے والا نجاشی تھا۔ اس صورت میں اس کو بنی اسرائیل فرمانا اس وجہ سے ہوگا کہ وہ بنی اسرائیل کا متبع تھا نہ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں تھا۔ علامہ عینی نے اپنی عادت کے موافق حافظ صاحب پر اعتراض کیا اور حافظ صاحب کی وسعت نظر اور کثرت علم کی تعریف نہ کی۔ اور کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا حالانکہ حافظ نے خود فرمایا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول ہے۔ (وحیدی) اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں : وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ الْأَجَلِ فِي الْقَرْضِ وَوُجُوبُ الْوَفَاءِ بِهِ وَقِيلَ لَا يَجِبُ بَلْ هُوَ مِنْ بَابِ الْمَعْرُوفِ وَفِيهِ التَّحَدُّثُ عَمَّا كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الْعَجَائِبِ لِلِاتِّعَاظِ وَالِائْتِسَاءِ وَفِيهِ التِّجَارَةُ فِي الْبَحْرِ وَجَوَازُ رُكُوبِهِ وَفِيهِ بُدَاءَةُ الْكَاتِبِ بِنَفْسِهِ وَفِيهِ طَلَبُ الشُّهُودِ فِي الدَّيْنِ وَطَلَبُ الْكَفِيلِ بِهِ وَفِيهِ فَضْلُ التَّوَكُّلِ عَلَى اللَّهِ وَأَنَّ مَنْ صَحَّ تَوَكُّلُهُ تَكَفَّلَ اللَّهُ بِنَصْرِهِ وَعَوْنِهِ الخ (فتح) یعنی اس حدیث میں جواز ہے کہ قرض میں وقت مقرر کیا جائے اور وقت مقرر پر ادائیگی کا وجوب بھی ثابت ہوا اور اس سے بنی اسرائیل کے عجیب و اقعات کا بیان کرنا بھی جائز ثابت ہوا تاکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے، اور ان کی اقتداءکی جائے اور اس سے دریائی تجارت کا بھی ثبوت ہوا اور دریائی سواریوں پر سوار ہونا بھی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کاتب شروع میں اپنا نام لکھے اور اس سے قرض کے متعلق گواہوں کا طلب کرنا اور اس کے کفیل کا طلب بھی ثابت ہوا۔ اور اس سے توکل علی اللہ کی فضیلت بھی نکلی اور یہ بھی کہ جو حقیقی صحیح متوکل ہوگا اللہ پاک اس کی مدد اور نصرت کا ذمہ دار ہوتاہے۔ خود قرآن پاک میں ارشاد باری ہے ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾(الطلاق3)جو اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لیے کافی و وافی ہے۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن مجید میں وارد ہیں۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جانے کا نام توکل نہیں ہے۔ بلکہ کام کو پوری قوت کے ساتھ انجام دینا اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کر دینا اور خیر کے لیے اللہ سے پوری پوری امید رکھنا یہ توکل ہے جو ایک مسلمان کے لیے داخل ایمان ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا أنَا عِندَ ظَن عبدِي بي۔ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ میرے متعلق جو بھی گمان قائم کرے گا۔ مطلب یہ کہ بندہ اللہ پر جیسا بھی بھروسہ کرے گا اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا۔ اسرائیلی مومن نے اللہ پر بھروسہ کرکے ایک ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم کو اللہ کے حوالہ کر دیا۔ اللہ نے اس کے گمان کو صحیح کرکے دکھلایا۔ شروع میں ابولزناد کی روایت سے جو اوقعہ مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنا ہی مال سمجھ کر اس سے بوجہ نادانی صحبت کر لی یہ مقدمہ حضرت عمر ؓ کی عدالت عالیہ میں آیا تو آپ نے اس کی نادانی کے سبب اس پر رجم کی سزا معاف کر دی مگر بطور تعزیر سو کوڑے لگوائے۔ پھر جب حضرت حمزہ اسلمی ؓ وہاں زکوٰۃ وصول کرنے بطور تحصیل دار گئے، تو ان کے سامنے بھی یہ معاملہ آیا۔ ان کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے کا علم نہ تھا۔ لوگوں نے ذکرکیا تب ان کو یقین نہ آیا۔ اس لیے قبیلہ والوں میں سے کسی نے اپنی ضمانت پیش کی کہ آپ حضرت عمر ؓ سے اس کی تصدیق فرما لیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ ضمانت قبول کی اور حضرت عمر ؓ سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس سے حاضر ضمانت کو ثابت فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) said, "An Israeli man asked another Israeli to lend him one thousand Dinars. The second man required witnesses. The former replied, 'Allah is sufficient as a witness.' The second said, 'I want a surety.' The former replied, 'Allah is sufficient as a surety.' The second said, 'You are right,' and lent him the money for a certain period. The debtor went across the sea. When he finished his job, he searched for a conveyance so that he might reach in time for the repayment of the debt, but he could not find any. So, he took a piece of wood and made a hole in it, inserted in it one thousand Dinars and a letter to the lender and then closed (i.e. sealed) the hole tightly. He took the piece of wood to the sea and said. 'O Allah! You know well that I took a loan of one thousand Dinars from so-and-so. He demanded a surety from me but I told him that Allah's Guarantee was sufficient and he accepted Your guarantee. He then asked for a witness and I told him that Allah was sufficient as a Witness, and he accepted You as a Witness. No doubt, I tried hard to find a conveyance so that I could pay his money but could not find, so I hand over this money to You.' Saying that, he threw the piece of wood into the sea till it went out far into it, and then he went away. Meanwhile he started searching for a conveyance in order to reach the creditor's country.
One day the lender came out of his house to see whether a ship had arrived bringing his money, and all of a sudden he saw the piece of wood in which his money had been deposited. He took it home to use for fire. When he sawed it, he found his money and the letter inside it. Shortly after that, the debtor came bringing one thousand Dinars to him and said, 'By Allah, I had been trying hard to get a boat so that I could bring you your money, but failed to get one before the one I have come by.' The lender asked, 'Have you sent something to me?' The debtor replied, 'I have told you I could not get a boat other than the one I have come by.' The lender said, 'Allah has delivered on your behalf the money you sent in the piece of wood. So, you may keep your one thousand Dinars and depart guided on the right path."