باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: The Statement of Allah jala jalaaluhu:"... To those also with whom you have made a pledge, give them their due portion by Wasiya...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2292.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ’’اور ہم نے ہر ایک کے لیے موالی ٹھہرائےہیں۔‘‘ اس میں موالی سے مراد وارث ہیں اور’’جن سے تم نے قسم اٹھا کر پیمان باندھا‘‘ اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین جب مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان میں اور انصار میں بھائی چارہ کرادیا، چنانچہ مہاجر، نبی ﷺ کے کرائےہوئے اس مواخات کے سبب انصاری کا ترکہ پاتا اور اس کے رشتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اور جب یہ آیت ’’ہم نے ہر ایک کے موالی ٹھہرائے ہیں‘‘ نازل ہوئی تو اس سے مذکورہ اجازت ’’اور جن لوگوں سے تم نے قسم اٹھا کر عہدو پیمان کیا انھیں ان کا حصہ دو‘‘ منسوخ ہوگئی۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اب ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ کی رو سے صرف مدد، معاونت اور خیرخواہی کی گنجائش باقی رہی اور وراثت میں حصہ پانے کا حق جاتارہا، البتہ ان کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔
تشریح:
(1) اس روایت کے ذریعے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ﴾ کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک قسم اٹھا کر عہدو پیمان باندھنے والوں سے مراد انصار ہیں جنھوں نے مؤاخات کے سبب مہاجرین کو وراثت میں شامل کرلیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کے مطابق ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ کے نزول کے بعد ترکے میں حصے کی اجازت ختم ہوگئی، البتہ مؤاخات صرف مدد،اعانت اور خیرخواہی تک محدود ہوگئی۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کفالہ کا مقصد یہ ہے کہ حصول ثواب کےلیے کسی چیز کو اپنے ذمے کرلیا جائے تو وہ لازم ہوجاتی ہے جیسے قسم اٹھا کر عہد کرنے سے وراثت کا استحقاق لازم ہوجاتا تھا۔ شارح بخاری ابن منیر ؒنے لکھا ہے کہ کفالت کے باب میں امام بخاری یہ روایت اس لیے لائے ہیں کہ جب آغاز اسلام میں عقد حلف سے ترکے کا استحقاق پیدا ہوجاتاتھا تو کفالت سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر عائد ہوگی کیونکہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ (فتح الباري:596/4) (3) امام بخاری ؒ نے جس آیت کو باب کے طور پر پیش کیا ہے اس میں وارد لفظ عَقَدَتْ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔ عاصم، حمزہ اور کسائی کی قراءت عَقَدَتْ ہے جو ہمارے ہاں معروف ہے اور دیگر قراءاسے عاقدت پڑھتے ہیں،تاہم دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ (إرشاد الساري:263/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2219
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2292
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2292
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2292
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ’’اور ہم نے ہر ایک کے لیے موالی ٹھہرائےہیں۔‘‘ اس میں موالی سے مراد وارث ہیں اور’’جن سے تم نے قسم اٹھا کر پیمان باندھا‘‘ اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین جب مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان میں اور انصار میں بھائی چارہ کرادیا، چنانچہ مہاجر، نبی ﷺ کے کرائےہوئے اس مواخات کے سبب انصاری کا ترکہ پاتا اور اس کے رشتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اور جب یہ آیت ’’ہم نے ہر ایک کے موالی ٹھہرائے ہیں‘‘ نازل ہوئی تو اس سے مذکورہ اجازت ’’اور جن لوگوں سے تم نے قسم اٹھا کر عہدو پیمان کیا انھیں ان کا حصہ دو‘‘ منسوخ ہوگئی۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اب ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ کی رو سے صرف مدد، معاونت اور خیرخواہی کی گنجائش باقی رہی اور وراثت میں حصہ پانے کا حق جاتارہا، البتہ ان کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کے ذریعے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ﴾ کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک قسم اٹھا کر عہدو پیمان باندھنے والوں سے مراد انصار ہیں جنھوں نے مؤاخات کے سبب مہاجرین کو وراثت میں شامل کرلیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کے مطابق ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ کے نزول کے بعد ترکے میں حصے کی اجازت ختم ہوگئی، البتہ مؤاخات صرف مدد،اعانت اور خیرخواہی تک محدود ہوگئی۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کفالہ کا مقصد یہ ہے کہ حصول ثواب کےلیے کسی چیز کو اپنے ذمے کرلیا جائے تو وہ لازم ہوجاتی ہے جیسے قسم اٹھا کر عہد کرنے سے وراثت کا استحقاق لازم ہوجاتا تھا۔ شارح بخاری ابن منیر ؒنے لکھا ہے کہ کفالت کے باب میں امام بخاری یہ روایت اس لیے لائے ہیں کہ جب آغاز اسلام میں عقد حلف سے ترکے کا استحقاق پیدا ہوجاتاتھا تو کفالت سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر عائد ہوگی کیونکہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ (فتح الباري:596/4) (3) امام بخاری ؒ نے جس آیت کو باب کے طور پر پیش کیا ہے اس میں وارد لفظ عَقَدَتْ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔ عاصم، حمزہ اور کسائی کی قراءت عَقَدَتْ ہے جو ہمارے ہاں معروف ہے اور دیگر قراءاسے عاقدت پڑھتے ہیں،تاہم دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ (إرشاد الساري:263/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ کہ (قرآن مجید کی آیت) ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ کے متعلق ابن عباس ؓنے فرمایا کہ (موالی کے معنی) ورثہ کے ہیں۔ اور ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ (کا قصہ یہ ہے کہ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ نازل ہوئی تو پہلی آیت ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم (جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جنتی چاہے کی جاسکتی ہے۔ (جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔)
حدیث حاشیہ:
یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔ شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾(الأنفال:75) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری ؒ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى﴾(المائدة:8) محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔ قَالَ الطَّبَرِيُّ مَا اسْتَدَلَّ بِهِ أَنَسٌ عَلَى إِثْبَاتِ الْحَلْفِ لَا يُنَافِي حَدِيثَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ فِي نَفْيِهِ فَإِنَّ الْإِخَاءَ الْمَذْكُورَ كَانَ فِي أَوَّلِ الْهِجْرَةِ وَكَانُوا يَتَوَارَثُونَ بِهِ ثُمَّ نُسِخَ مِنْ ذَلِكَ الْمِيرَاثُ وَبَقِيَ مَا لَمْ يُبْطِلْهُ الْقُرْآنُ وَهُوَ التَّعَاوُنُ عَلَى الْحَقِّ وَالنَّصْرُ وَالْأَخْذُ عَلَى يَدِ الظَّالِمِ كَمَا قَالَ بن عَبَّاسٍ إِلَّا النَّصْرَ وَالنَّصِيحَةَ وَالرِّفَادَةَ وَيُوصَى لَهُ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ (فتح) یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس ؓ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔ آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام ؓ کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): Ibn Abbas (RA) said, "In the verse: To every one We have appointed ' (Muwaliya Mawaliya means one's) heirs (4.33).' (And regarding the verse) 'And those with whom your right hands have made a pledge.' Ibn 'Abbas (RA) said, "When the emigrants came to the Prophet (ﷺ) in Medina, the emigrant would inherit the Ansari while the latter's relatives would not inherit him because of the bond of brotherhood which the Prophet (ﷺ) established between them (i.e. the emigrants and the Ansar). When the verse: 'And to everyone We have appointed heirs' (4.33) was revealed, it cancelled (the bond (the pledge) of brotherhood regarding inheritance)." Then he said, "The verse: To those also to whom your right hands have pledged, remained valid regarding co-operation and mutual advice, while the matter of inheritance was excluded and it became permissible to assign something in one's testament to the person who had the right of inheriting before