باب : جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا،
)
Sahi-Bukhari:
Kafalah
(Chapter: He who undertakes to repay the debts of a dead person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری نے بھی یہی فرمایا
2295.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نمازجنازہ پڑھیں۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ نے پوچھا: ’’ کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ حضرت ابو قتادہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں اس کا قرض اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کر سکتا جبکہ وہ میت کے قرض کی ضمانت اٹھا چکا ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کی ضمانت کی وجہ سے میت کی نماز جنازہ پڑھی۔ اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابو قتادہ ؓ عملاً اس کی ادائیگی نہ کردیتے نبی ﷺ اس کی نماز نہ پڑھتے۔ (2) واضح رہے کہ جب کوئی شخص میت کے قرض کی ذمہ داری لےلے تو میت بری الذمہ ہوجاتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔ جمہور کا یہی موقف ہے کہ مرنے والا مال چھوڑے یا نہ چھوڑے ذمہ اٹھا لینے سے وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔ (فتح الباري:598/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2222
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2295
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2295
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2295
تمہید کتاب
کفالت کے لغوی معنی" ملانے اور چمٹانے" کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں" کسی مال یا قرض کی ادائیگی یا کسی شخص کو بروقت حاضر کردینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو" کفالت" کہا جاتا ہے۔"اسی طرح اگر کسی نے بے سہارا آدمی کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری اٹھالی تو اسے" کفیل کہتے ہیں۔کفالت کا دوسرا نام ضمان ہے،اس لیے کہ کفالت میں ضمانت کا ہونا ضروری ہے۔کفالت سے متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:کفیل: ضمانت لینے اور ذمہ داری قبول کرنے والے کو کفیل کہا جاتا ہے۔اصیل: جس کے ذمے کوئی قرض یا چیز ہو اور وہ کسی کو کفیل بنائے،اسے مکفول عنہ بھی کہتے ہیں۔مکفول لہ: جس کا مطالبہ یا قرض باقی ہو اور اسے اعتماد میں رکھنے کے لیے ذمہ داری اٹھائی جائے۔مکفول بہ: وہ مال، قرض یا شخص جس کے متعلق ذمہ داری قبول کی گئی ہو۔٭ کفالت کی تین قسمیں ہیں: (1) ادائیگی قرض کی ضمانت کو کفالت بالدین کہتے ہیں۔(2) کسی چیز کی حفاظت کسی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری کو کفالت بالعین کہا جاتا ہے۔(3) کسی شخص کے متعلق ذمہ داری قبول کرنے کو کفالت بالنفس کا نام دیا جاتا ہے۔ذمہ داری قبول کرنے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے: (1) کفیل مطلق طور پر ذمہ داری قبول کرلے کہ میں اس قرض کو ادا اور شخص کو حاضر کروں گا۔اس صورت میں حق دار چاہے کفیل سے مطالبہ کرے یا اصیل سے،اسے دونوں کا حق ہے۔(2) کفیل نے کہا: اگر اصیل ادا نہیں کرے گا تو میں دوں گا۔اس صورت میں دار پہلے اصیل سے مطالبہ کرے گا اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کیا جائے گا۔(3) حق دار نے اصیل کو ایک سال کی مہلت دی۔اس صورت میں ایک سال تک کفیل سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ مدت گزرنے کے بعد اگر وہ ادا نہ کرے تو کفیل سے مطالبہ کرنا صحیح ہوگا۔کفالت کا طریقہ یہ ہے کہ ذمہ داری لینے والا،حق دار سے کہے کہ آپ کی جو رقم یا جو مال فلاں کے ذمے ہے میں اس کا ضامن ہو یا فلاں مجرم کا میں ذمہ دار ہوں۔اب اگر قرض دار اپنا قرض بروقت ادا نہیں کرتا تو ادائیگی کی ذمہ داری کفیل پر ہوگی۔جس طرح مال کی ادائیگی یا شخص کی حاضری کی کفالت صحیح ہے،اسی طرح کسی چیز کے نقل وحمل کی کفالت بھی صحیح ہے۔سامان کی نقل وحرکت اسی ضمن میں آتی ہے،نیز جس طرح زندہ شخص کے قرض کی کفالت صحیح ہے اسی طرح مردہ کی طرف سے بھی قرض وغیرہ کی کفالت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت نو احادیث پیش کی ہیں جن میں دو معلق اورسات متصل ہیں۔حدیث ابن عباس اور حدیث سلمہ بن اکوع کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: قرض وغیرہ کے متعلق شخصی اور مالی ضمانت۔٭ میت کا قرض اتارنے کی ضمانت کے بعد اس سے پھرنا جائز نہیں۔٭ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پناہ گیری۔٭قرض کی سنگینی اور اس کی ضمانت۔ہم آئندہ احادیث کے فوائد میں امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کریں گے جو انھوں نے کفالت وضمانت کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن اخلاص اور خالص عمل کی توفیق دے۔آمين.
تمہید باب
جمہور کا یہی مؤقف ہے کہ میت کے قرض کی ضمانت دینے کے بعد اسے پھرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ذمہ داری اٹھانے کے بعد وہ اس پر لازم ہوچکا ہے۔( عمدۃ القاری:8/660)
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نمازجنازہ پڑھیں۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ نے پوچھا: ’’ کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ حضرت ابو قتادہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں اس کا قرض اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کر سکتا جبکہ وہ میت کے قرض کی ضمانت اٹھا چکا ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کی ضمانت کی وجہ سے میت کی نماز جنازہ پڑھی۔ اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابو قتادہ ؓ عملاً اس کی ادائیگی نہ کردیتے نبی ﷺ اس کی نماز نہ پڑھتے۔ (2) واضح رہے کہ جب کوئی شخص میت کے قرض کی ذمہ داری لےلے تو میت بری الذمہ ہوجاتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔ جمہور کا یہی موقف ہے کہ مرنے والا مال چھوڑے یا نہ چھوڑے ذمہ اٹھا لینے سے وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔ (فتح الباري:598/4)
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری نے بھی یہی فرمایا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کرسکتا۔ جب وہ میت کے قرضے کا ضامن ہو۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے صرف ابوقتادہ کی ضمانت کے سبب اس پر نماز پڑھ لی۔ اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابوقتادہ ؓ یہ قرض ادا نہ کردیتے آپ اس پر نماز نہ پڑھتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA): A dead person was brought to the Prophet (ﷺ) so that he might lead the funeral prayer for him. He asked, "Is he in debt?" When the people replied in the negative, he led the funeral prayer. Another dead person was brought and he asked, "Is he in debt?" They said, "Yes." He (refused to lead the prayer and) said, "Lead the prayer of your friend." Abu Qatada said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I undertake to pay his debt." Allah's Apostle (ﷺ) then led his funeral prayer.