باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: A partner can deputize for another)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺنے حضرت علی ؓ کو اپنی قربانی کے جانور میں شریک کر لیا پھر انہیں حکم دیا کہ فقیروں کو بانٹ دیں۔
2300.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی تم قربانی کرلو۔‘‘
تشریح:
ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے حوالے بکریاں کیں،قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ قربانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے،ان میں تقسیم کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا۔حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ ’’ بکری کے بچے کی تم قربانی کرلو‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا تقسیم میں حصہ تھا اور انھیں تقسیم پر بھی مامور کیا گیا تھا،اس طرح یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ شریک کو وکیل بنایا جاسکتا ہے۔(فتح الباري:604/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2227
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2300
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2300
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2300
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
تمہید باب
مذکورہ کلام دو احادیث سے ماخوذ ہے: حدیث جابر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر برقرار رہیں اور آپ نےانھیں اپنی قربانی میں بھی شریک کیا۔( صحیح البخاری،الشرکۃ،حدیث:2505) دوسری حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اونٹوں کی نگہداشت پر مامور کیا تھا اور کہاتھا کہ انھیں تقسیم کردیں۔( صحیح البخاری،الحج،حدیث:1717) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریک کار کو وکیل بنایا جاسکتا ہے، خواہ وہ کام تقسیم کا ہویا کسی اور چیز سے متعلق ہو۔ اس میں کوئی قباحت نہیں۔
اور نبی کریمﷺنے حضرت علی ؓ کو اپنی قربانی کے جانور میں شریک کر لیا پھر انہیں حکم دیا کہ فقیروں کو بانٹ دیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی تم قربانی کرلو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے حوالے بکریاں کیں،قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ قربانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے،ان میں تقسیم کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا۔حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ ’’ بکری کے بچے کی تم قربانی کرلو‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا تقسیم میں حصہ تھا اور انھیں تقسیم پر بھی مامور کیا گیا تھا،اس طرح یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ شریک کو وکیل بنایا جاسکتا ہے۔(فتح الباري:604/4)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ نے حضرت علی ؓ کو(پہلے)اپنی قربانی میں شریک کیا پھر انھیں ان کی تقسیم پر مامور کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے کچھ بکریاں ان کے حوالہ کی تھیں تاکہ صحابہ ؓ میں ان کو تقسیم کردیں۔ ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کرلے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin Amir (RA): that the Prophet (ﷺ) had given him sheep to distribute among his companions and a male kid was left (after the distribution). When he informed the Prophet (ﷺ) of it, he said (to him), "Offer it as a sacrifice on your behalf."