Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute a person, present or absent)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے وکیل کو جو ان سے غائب تھا یہ لکھا کہ چھوٹے بڑے ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے وہ صدقہ فطر نکال دیں۔ تشریح : ابن بطال نے کہا جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ جو شخص شہر میں موجود ہو اور اس کو کوئی عذر نہ ہو وہ بھی وکیل کر سکتا ہے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ بیماری کے عذر سے ایسا کرنا درست ہے یا فریق مقابل کی رضامندی سے، اور امام مالک نے کہا اس شخص کو وکیل کرنا درست نہیں جس کی فریق مقابل سے دشمنی ہو۔ اور طحاوی نے جمہور کے قول کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاضر کو وکیل کرنا بلا شرط بالاتفاق جائز رکھا ہے اور غائب کی وکالت وکیل کے قبول پر موقوف رہے گی بالاتفاق اور جب قبول پر موقوف رہی تو حاضر اور غائب ہر دو کا حکم برابر ہے۔ ( فتح الباری ) عبداللہ بن عمر ؓ کے اثر کے بارے میں حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس اثر کو کس نے نکالا۔ لیکن یہ کہا کہ مجھ کو اس وکیل کا نام معلوم نہیں ہوا۔
2305.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے اونٹ دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ’’وہی اس کو دے دو۔‘‘ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ’’تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔‘‘
تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا:’’اسے اونٹ دےدو۔‘‘ اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔(فتح الباري:608/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2231
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2305
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2305
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2305
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے وکیل کو جو ان سے غائب تھا یہ لکھا کہ چھوٹے بڑے ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے وہ صدقہ فطر نکال دیں۔ تشریح : ابن بطال نے کہا جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ جو شخص شہر میں موجود ہو اور اس کو کوئی عذر نہ ہو وہ بھی وکیل کر سکتا ہے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ بیماری کے عذر سے ایسا کرنا درست ہے یا فریق مقابل کی رضامندی سے، اور امام مالک نے کہا اس شخص کو وکیل کرنا درست نہیں جس کی فریق مقابل سے دشمنی ہو۔ اور طحاوی نے جمہور کے قول کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حاضر کو وکیل کرنا بلا شرط بالاتفاق جائز رکھا ہے اور غائب کی وکالت وکیل کے قبول پر موقوف رہے گی بالاتفاق اور جب قبول پر موقوف رہی تو حاضر اور غائب ہر دو کا حکم برابر ہے۔ ( فتح الباری ) عبداللہ بن عمر ؓ کے اثر کے بارے میں حافظ نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس اثر کو کس نے نکالا۔ لیکن یہ کہا کہ مجھ کو اس وکیل کا نام معلوم نہیں ہوا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے اونٹ دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ’’وہی اس کو دے دو۔‘‘ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ’’تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا:’’اسے اونٹ دےدو۔‘‘ اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔(فتح الباري:608/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓنے اپنے منشی کو لکھا جبکہ وہ غائب تھا کہ وہ ان کے چھوٹے بڑے اہل خانہ کی طرف سے فطرانہ ادا کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا تو آپ نے (اپنے صحابہ ؓ سے) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ ؓ نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا (مل سکا) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾(الرحمن:60) کے تحت ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) owed somebody a camel of a certain age. When he came to demand it back, the Prophet (ﷺ) said (to some people), "Give him (his due)." When the people searched for a camel of that age, they found none, but found a camel one year older. The Prophet (ﷺ) said, "Give (it to) him." On that, the man remarked, "You have given me my right in full. May Allah give you in full." The Prophet (ﷺ) said, "The best amongst you is the one who pays the rights of others generously."