باب : ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: If someone deputes a person to give something)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2309.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’یہ کون ہے:‘‘ میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا : ’’تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دو۔‘‘ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب آئے تو میں نے الگ راہ لی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ عرض کیا: میں نے ایک بیوہ سے شادی کی ہے جس کا شوہر فوت ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ کسی نو خیز سےشادی کیوں نہیں کی، وہ تمھاری خوش طبعی کا ذریعہ ہوتی اور تم اسے خوش کرتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا: میرا باپ فوت ہوگیا ہے پس ماندگاں میں چند بیٹیاں ہیں، میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو اور وہ خود تجربہ کار ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یہی چاہیے تھا۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا: ’’اے بلال! ان (جابر) کو پیسے دواور کچھ زیادہ دو۔‘‘ حضرت بلال ؓ نے چاردینار دیے اور ایک قیراط زیادہ دیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا زیادہ عنایت کردہ قیراط ہمیشہ میرے پاس رہتا تھا، چنانچہ وہ اس قیراط کو اپنے بٹوے میں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف طور پر نہیں بتایا تھا کہ اتنا زیادہ دے مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانے کے دستور کے مطابق ایک قیراط زائد سونا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان متعارف چیز کی حیثیت منصوص علیہ کی سی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو صدقہ دینے کا حکم دے تو وہ اگر لوگوں کے تعارف اور دستور کے مطابق دے تو جائز ہے اگر دستور سے زیادہ دے گا تو وہ مالک کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اگر وہ راضی ہوگیا تو درست ہے بصورت دیگر زائد مقدار واپس لینے کا مجاز ہوگا۔ (2) حضرت جابر ؓ کے عمل سے ثابت ہوا کہ کوئی اپنے بزرگ کے عطیہ یا کسی حقیقی یاد گار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو جائز ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2234
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2309
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2309
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2309
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’یہ کون ہے:‘‘ میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا ماجرا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا : ’’تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دو۔‘‘ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب آئے تو میں نے الگ راہ لی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ عرض کیا: میں نے ایک بیوہ سے شادی کی ہے جس کا شوہر فوت ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ کسی نو خیز سےشادی کیوں نہیں کی، وہ تمھاری خوش طبعی کا ذریعہ ہوتی اور تم اسے خوش کرتے ؟‘‘ میں نے عرض کیا: میرا باپ فوت ہوگیا ہے پس ماندگاں میں چند بیٹیاں ہیں، میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو اور وہ خود تجربہ کار ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’یہی چاہیے تھا۔‘‘ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا: ’’اے بلال! ان (جابر) کو پیسے دواور کچھ زیادہ دو۔‘‘ حضرت بلال ؓ نے چاردینار دیے اور ایک قیراط زیادہ دیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا زیادہ عنایت کردہ قیراط ہمیشہ میرے پاس رہتا تھا، چنانچہ وہ اس قیراط کو اپنے بٹوے میں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف طور پر نہیں بتایا تھا کہ اتنا زیادہ دے مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانے کے دستور کے مطابق ایک قیراط زائد سونا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان متعارف چیز کی حیثیت منصوص علیہ کی سی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کو صدقہ دینے کا حکم دے تو وہ اگر لوگوں کے تعارف اور دستور کے مطابق دے تو جائز ہے اگر دستور سے زیادہ دے گا تو وہ مالک کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اگر وہ راضی ہوگیا تو درست ہے بصورت دیگر زائد مقدار واپس لینے کا مجاز ہوگا۔ (2) حضرت جابر ؓ کے عمل سے ثابت ہوا کہ کوئی اپنے بزرگ کے عطیہ یا کسی حقیقی یاد گار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو جائز ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر ؓ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم ﷺ کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہوئی (کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ مجھے دے دے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے ٓاگے رہنے لگا۔ آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کردے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو آپ ﷺ کا ہی ہے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کردے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں (دوسری طرف) جانے لگا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پاچکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ بلال ! ان کی قیمت ادا کردو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر ؓ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا وہ قیراط جابر ؓ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔ مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔ الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر ؓ سے چھین لیا تھا۔ حضرت جابر ؓ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس حدیث سے آیت قرآنی ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ﴾ کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے حضرت جابر ؓ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔ اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر ؓ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔ اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ آپ نے حضرت جابر ؓ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں: فیه حدیث جابر و هو حدیث مشهور احتج به أحمد ومن وافقه في جواز بیع الدابة و یشترط البائع لنفسه رکوبها یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔ اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔ اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی ؒدوسری جگہ فرماتے ہیں: و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا :وَاعْلَمْ أَنَّ فِي حَدِيثِ جَابِرٍ هَذَا فَوَائِدَ كَثِيرَةً إِحْدَاهَا هَذِهِ الْمُعْجِزَةُ الظَّاهِرَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْبِعَاثِ جَمَلِ جَابِرٍ وَإِسْرَاعِهِ بَعْدَ إِعْيَائِهِ الثَّانِيَةُ جَوَازُ طَلَبِ الْبَيْعِ مِمَّنْ لَمْ يَعْرِضْ سِلْعَتَهُ لِلْبَيْعِ الثَّالِثَةُ جَوَازُ الْمُمَاكَسَةِ فِي الْبَيْعِ وَسَبَقَ تَفْسِيرُهَا الرَّابِعَةُ اسْتِحْبَابُ سُؤَالِ الرَّجُلِ الْكَبِيرِ أَصْحَابَهُ عَنْ أَحْوَالِهِمْ وَالْإِشَارَةِ عَلَيْهِمْ بِمَصَالِحِهِمْ الْخَامِسَةُ اسْتِحْبَابُ نِكَاحِ الْبِكْرِ السَّادِسَةُ اسْتِحْبَابُ مُلَاعَبَةِ الزَّوْجَيْنِ السَّابِعَةُ فَضِيلَةُ جَابِرٍ فِي أَنَّهُ تَرَكَ حَظَّ نَفْسِهِ مِنْ نِكَاحِ الْبِكْرِ وَاخْتَارَ مَصْلَحَةَ أَخَوَاتِهِ بِنِكَاحِ ثَيِّبٍ تَقُومُ بِمَصَالِحِهِنَّ الثَّامِنَةُ اسْتِحْبَابُ الِابْتِدَاءِ بِالْمَسْجِدِ وَصَلَاةِ رَكْعَتَيْنِ فِيهِ عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ التَّاسِعَةُ اسْتِحْبَابُ الدَّلَالَةِ عَلَى الْخَيْرِ الْعَاشِرَةُ اسْتِحْبَابُ ارجاح الميزان فيما يدفعه الحادية عشر أَنَّ أُجْرَةَ وَزْنِ الثَّمَنِ عَلَى الْبَائِعِ الثَّانِيَةَ عَشْرَةَ التَّبَرُّكُ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ لِقَوْلِهِ لَا تُفَارِقُهُ زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ تَقَدُّمِ بَعْضِ الْجَيْشِ الرَّاجِعِينَ بِإِذْنِ الْأَمِيرِ الرَّابِعَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ الْوَكَالَةِ فِي أَدَاءِ الْحُقُوقِ وَنَحْوِهَا وَفِيهِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا سبق والله أعلم ( نووی ) یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔ اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔ دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔ تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔ چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔ آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔ نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔ دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ (یابصورت نقد کچھ زیادہ) دینا مستحب ہے۔ گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔ بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔ تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔ چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت ﷺ نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔ اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔ حضرت جابر ؓ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔ اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔ ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر ؓ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔ شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔ ثم آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): I was accompanying the Prophet (ﷺ) on a journey and was riding a slow camel that was lagging behind the others. The Prophet (ﷺ) passed by me and asked, "Who is this?" I replied, "Jabir bin 'Abdullah." He asked, "What is the matter, (why are you late)?" I replied, "I am riding a slow camel." He asked, "Do you have a stick?" I replied in the affirmative. He said, "Give it to me." When I gave it to him, he beat the camel and rebuked it. Then that camel surpassed the others thenceforth. The Prophet (ﷺ) said, "Sell it to me." I replied, "It is (a gift) for you, O Allah's Apostle." He said, "Sell it to me. I have bought it for four Dinars (gold pieces) and you can keep on riding it till Medina." When we approached Medina, I started going (towards my house). The Prophet (ﷺ) said, "Where are you going?" I Sad, "I have married a widow." He said, "Why have you not married a virgin to fondle with each other?" I said, "My father died and left daughters, so I decided to marry a widow (an experienced woman) (to look after them)." He said, "Well done." When we reached Medina, Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Bilal (RA) , pay him (the price of the camel) and give him extra money." Bilal (RA) gave me four Dinars and one Qirat extra. (A sub-narrator said): Jabir added, "The extra Qirat of Allah's Apostle (ﷺ) never parted from me." The Qirat was always in Jabir bin 'Abdullah's purse.