باب : وقف کے مال میں وکالت اور وکیل کاخرچہ اور وکیل کا اپنے دوست کو کھلانا اور خود بھی دستور کے موافق کھانا
)
Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: The deputyship for managing the Waaf and the expenses of the trustee. The trustee can provide his friends and can eat from it reasonably)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2313.
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عمر ؓ کے صدقے کے متعلق کہا: متولی پر کوئی اعتراض نہیں کہ ضرورت کے مطابق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے، البتہ مال جمع کرنے میں نہ لگارہے۔ حضرت ابن عمر ؓ حضرت عمر ؓ کے صدقے کے متولی تھے، وہ مکہ مکرمہ سے آنے والے مہمانوں کو اس سے ہدیہ بھی دیتے تھے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نخلستان اللہ کی راہ میں وقف کیا تھا، دیگر ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ اس وقف کا متولی دستور کے مطابق خود بھی کھاسکتا ہے اور کسی دوست کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرے گا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) (2) امام بخاری ؒ اس عنوان سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وکالت جس طرح بندوں کی خالص املاک میں ہوسکتی ہے اس طرح اوقاف میں اس سے کام لیا جاسکتا ہے۔ وقف کا متولی اگر اس کی نگہداشت کے لیے اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اس کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت عمر ؓ نے یہ ضابطہ قرآن کریم سے اخذ کیا تھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ’’یتیم کا سرپرست اگر ضرورت مند ہے تو دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔‘‘ (النساء6:4) اس روایت کو علامہ مزی نے متصل سند سے بیان کیا ہے،اس میں حضرت عمرو بن دینار حضرت ابن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں۔(فتح الباري:619/4) (4) حضرت ابن عمر ؓ اہل مکہ کو بطور ہدیہ دیتے تھے، وہ اس لیے کہ وقف عمر میں یہ شرط تھی کہ مہمانوں کو بھی اس سے کھلایا جائے۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) وقف سے متعلق دیگر احکام ومسائل کتاب الوقف میں بیان کیے جائیں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2238
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2313
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2313
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2313
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عمر ؓ کے صدقے کے متعلق کہا: متولی پر کوئی اعتراض نہیں کہ ضرورت کے مطابق کھائے یا کسی دوست کو کھلائے، البتہ مال جمع کرنے میں نہ لگارہے۔ حضرت ابن عمر ؓ حضرت عمر ؓ کے صدقے کے متولی تھے، وہ مکہ مکرمہ سے آنے والے مہمانوں کو اس سے ہدیہ بھی دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نخلستان اللہ کی راہ میں وقف کیا تھا، دیگر ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ تھی کہ اس وقف کا متولی دستور کے مطابق خود بھی کھاسکتا ہے اور کسی دوست کو بھی کھلا سکتا ہے لیکن وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرے گا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) (2) امام بخاری ؒ اس عنوان سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وکالت جس طرح بندوں کی خالص املاک میں ہوسکتی ہے اس طرح اوقاف میں اس سے کام لیا جاسکتا ہے۔ وقف کا متولی اگر اس کی نگہداشت کے لیے اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اس کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (3) حضرت عمر ؓ نے یہ ضابطہ قرآن کریم سے اخذ کیا تھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ’’یتیم کا سرپرست اگر ضرورت مند ہے تو دستور کے مطابق لے سکتا ہے۔‘‘ (النساء6:4) اس روایت کو علامہ مزی نے متصل سند سے بیان کیا ہے،اس میں حضرت عمرو بن دینار حضرت ابن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں۔(فتح الباري:619/4) (4) حضرت ابن عمر ؓ اہل مکہ کو بطور ہدیہ دیتے تھے، وہ اس لیے کہ وقف عمر میں یہ شرط تھی کہ مہمانوں کو بھی اس سے کھلایا جائے۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2764) وقف سے متعلق دیگر احکام ومسائل کتاب الوقف میں بیان کیے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے صدقہ کے باب میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں یوں ہے کہ صدقے کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن روپیہ نہ جمع کرے اور عبداللہ بن عمر ؓ اپنے والد حضرت عمر ؓ کے صدقے کے متولی تھے۔ وہ مکہ والوں کو اس میں سے تحفہ بھیجتے تھے جہاں آپ قیام فرمایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں وکیل سے ناظر، متولی مراد ہے۔ اگر واقف کی اجازت ہے تو وہ اس میں سے اپنے دوستوں کو بوقت ضرورت کھلا بھی سکتا ہے اور خودبھی کھا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): Concerning the Waqf of 'Umar (RA): It was not sinful of the trustee (of the Waqf) to eat or provide his friends from it, provided the trustee had no intention of collecting fortune (for himself). Ibn 'Umar (RA) was the manager of the trust of 'Umar and he used to give presents from it to those with whom he used to stay at Makkah.