Sahi-Bukhari:
Representation, Authorization, Business by Proxy
(Chapter: To depute a person to carry out a punishment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2316.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت نعیمان یا ابن نعیمان ؓ کو اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے شراب پی رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے گھر کے اندر موجود تھے انھیں حکم دیا کہ وہ اسے ماریں۔ (حضرت عقبہ ؓ کہتے ہیں کہ) میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے اسے مارا، چنانچہ ہم نے اسے جوتوں اور کھجور کی شاخوں (چھڑیوں) سے مارا تھا۔
تشریح:
(1) اسماعیلی کی روایت میں بغیر تردد اور شک کے نعیمان کے الفاظ ہیں۔ ان کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری ہے۔ یہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ بڑے خوش مزاج قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے شراب نوشی کی تو نشے کی حالت میں انھیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا گیا تو آپ نے گھر والوں ہی کو حد مارنے کا حکم دیا۔ گویا وہی آپ کی طرف سے وکیل تھے، چنانچہ ان میں سے کچھ نے جوتے مارے اور کچھ نے چھڑیوں سے پٹائی کردی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حد تمام حدود سے ہلکی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حد کےلیے شرابی کو ہوش میں آنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے نشے کی حالت ہی میں حد لگائی جاسکتی ہے جبکہ حاملہ عورت کو بچہ جننے تک مہلت دی جائے گی، وضع حمل کے بعد اس پر حد جاری ہوگی۔ (فتح الباري:620/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2240
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2316
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2316
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2316
تمہید کتاب
وکالت کے لغوی معنی نگرانی، حفاظت اور سپرد کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ایک صفت" وکیل" بھی ہے کیونکہ وہ ہمارے تمام کاموں کا نگران اور محافظ ہے۔شریعت کی اصطلاح میں " کسی آدمی کا دوسرے کو اپنا کام سپرد کرنا وکالت کہلاتا ہے۔"آدمی کو زندگی میں بے شمار ایسے کاموں سے واسطہ پڑتا ہے جن کو وہ خود انجام نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا۔اس کی مختلف صورتیں ہیں:٭کبھی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو کسی کام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کام کو خود انجام دینے کی اس میں اہلیت نہیں ہوتی۔٭ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خودایک کام میں مشغول ہوتا ہے،اس دوران میں کوئی دوسرا کام پیش آجاتا ہے ایسے کام کی انجام دہی کےلیے کسی دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔٭بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کام اتنا وسیع اور پھیلا ہوتا ہے کہ اسے سرانجام دینا ایک آدمی کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے ،الغرض جو کام انسان خود کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے اسے دوسروں سے بھی کراسکتا ہے۔شریعت میں اس کی اجازت ہے اور اسی کو وکالت کہتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا آدمی اس کام کو بجالانے کی استعداد ولیاقت رکھتا ہو۔اس کے متعلق چند ایک اصطلاحات حسب ذیل ہیں:٭ جوشخص کسی دوسرے کو اپنا کام سپرد کرتا ہے یا ذمہ دار بناتا ہے اسے مؤکل کہتے ہیں۔٭ جو آدمی کام کی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا اسے کام سونپا جاتا ہے وہ وکیل کہلاتا ہے۔٭ جس کام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اسے مؤکل بہ کہا جاتا ہے۔٭ دوسرے کی جگہ کام کی انجامددہی کو وکالت کہتے ہیں۔وکالت کا لفظ ہماری زبان میں عام طور پر اس پیشے پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعے سے حق کو ناحق اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا ہے۔اس کے ذریعے سے قاتلوں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اور وکیل اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر اسلامی قانون کے ذریعے سے لوگوں کے جھوٹے سچے مقدمات کی پیروی اور نمائندگی کرے۔یہی وجہ ہے کہ جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جرائم پیشہ لوگ شرفاء کی عزتوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔شریعت میں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾) آپ کو بددیانت لوگوں کی حمایت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔"( النساء:105:4)امام بخاری رحمہ اللہ نے وکالت کے متعلق عنوان قائم کرکے اس کی حدودو شرائط کو متعین کیا ہے اور اس کے احکام ومسائل کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کل چھبیس احادیث پیش کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیس موصول ہیں۔ان میں بارہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریباً سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں کچھ حسب ذیل ہیں:٭ تقسیم اور دیگر کاموں میں ایک شریک کا دوسرے شریک کو وکیل بنانا۔٭ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ دارالحرب یا داراالاسلام میں کسی حربی کو اپنا وکیل بنائے۔٭موجود اور غیر حاضر آدمی کو وکیل بنانا۔٭ کسی عورت کا حاکم وقت کو نکاح کےلیے وکیل بنانا۔٭ وقف اور اس کے اخراجات میں وکیل کا دائرۂ کار۔٭حدود کے معاملے میں وکالت۔٭قربانی کے جانوروں کی نگہداشت کےلیے وکیل بنانا۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بندوں کے مفادات اور مصالح کے پیش نظر وکالت کے متعلق متعدد احکام ذکر کیے ہیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر صدق دل سے عمل کی توفیق دے ۔آمين.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت نعیمان یا ابن نعیمان ؓ کو اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے شراب پی رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے گھر کے اندر موجود تھے انھیں حکم دیا کہ وہ اسے ماریں۔ (حضرت عقبہ ؓ کہتے ہیں کہ) میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے اسے مارا، چنانچہ ہم نے اسے جوتوں اور کھجور کی شاخوں (چھڑیوں) سے مارا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اسماعیلی کی روایت میں بغیر تردد اور شک کے نعیمان کے الفاظ ہیں۔ ان کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری ہے۔ یہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ بڑے خوش مزاج قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے شراب نوشی کی تو نشے کی حالت میں انھیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا گیا تو آپ نے گھر والوں ہی کو حد مارنے کا حکم دیا۔ گویا وہی آپ کی طرف سے وکیل تھے، چنانچہ ان میں سے کچھ نے جوتے مارے اور کچھ نے چھڑیوں سے پٹائی کردی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حد تمام حدود سے ہلکی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حد کےلیے شرابی کو ہوش میں آنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے نشے کی حالت ہی میں حد لگائی جاسکتی ہے جبکہ حاملہ عورت کو بچہ جننے تک مہلت دی جائے گی، وضع حمل کے بعد اس پر حد جاری ہوگی۔ (فتح الباري:620/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن ابی ملکیہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث ؓ نے بیان کیا کہ نعیمان یا ابن نعیمان ؓ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرکیا گیا۔ انہوں نے شراب پی لی تھی۔ جولوگ اس وقت گھر میں موجود تھے رسو ل اللہ ﷺ نے انہیں کو انہیں مارنے کے لیے حکم دیا۔ انہوں نے بیان کیا میں بھی مارنے والوں سے تھا۔ ہم نے جوتوں اور چھڑیوں سے انہیں مارا تھا۔
حدیث حاشیہ:
نعیمان یا ابن نعیمان ؓ کے بارے میں راوی کو شک ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں نعمان یا نعیمان ؓ مذکور ہے۔ حافظ نے کہا اس کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری تھا۔ بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑا خوش مزاج تھا۔ رسول کریم ﷺ نے گھر والوں کو مارنے کا حکم فرمایا۔ اس سے ترجمہ باب نکلتاہے کیوں کہ آپ ﷺ نے گھر کے موجود لوگوں کو مارنے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اسی سے حدود میں وکالت ثابت ہوئی اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin Al-Harith (RA): When An-Nuaman or his son was brought in a state of drunkenness, Allah's Apostle (ﷺ) ordered all those who were present in the house to beat him. I was one of those who beat him. We beat him with shoes and palm-leaf stalks.