مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2327.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ تمام اہل مدینہ سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم زمین کو بایں شرط بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ زمین کے ایک خاص حصے کی پیداوار مالک زمین کی ہوگی، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیت کے اس معین حصے پر آفت آجاتی اور باقی زمین کی پیداوار اچھی رہتی اور کبھی باقی کھیت پر آفت آجاتی اور معین قطعہ سالم رہتا بنا بریں ہمیں اس معاملے سے روک دیاگیا۔ اورسونے چاندی کے عوض (ٹھیکے پر) دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، گویا عنوان سابق سے ایک گونہ تعلق ہے، وہ اس طرح کہ زمین کو کچھ مدت تک بٹائی پر لیا، اب اسے حق ہے کہ اس میں جو چاہے کاشت کرے لیکن جب مدت ختم ہو جائے گی تو مالک زمین کو حق ہو گا کہ وہ اپنے درخت اکھاڑ کر یا فصل اٹھا کر خاص زمین مالک کے حوالے کرے، اس لحاظ سے عنوان سابق "قطع اشجار" سے کچھ مناسبت ہے۔ امام بخاری ؒ کے مزاج کے مطابق اس قدر مناسبت ہی کافی ہے۔ (عمدة القاري:16/9) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بٹائی پر زمین دینا جائز ہے لیکن زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار لینے کی شرط لگانا جائز نہیں۔ (3) نقدی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج راوی کے بیان کے مطابق اس وقت نہیں تھا لیکن اسی راوی کا بیان ہے کہ درہم و دینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث:2346) اس موضوع پر مکمل بحث آئندہ ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2251
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2327
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2327
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2327
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ تمام اہل مدینہ سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم زمین کو بایں شرط بٹائی پر دیا کرتے تھے کہ زمین کے ایک خاص حصے کی پیداوار مالک زمین کی ہوگی، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیت کے اس معین حصے پر آفت آجاتی اور باقی زمین کی پیداوار اچھی رہتی اور کبھی باقی کھیت پر آفت آجاتی اور معین قطعہ سالم رہتا بنا بریں ہمیں اس معاملے سے روک دیاگیا۔ اورسونے چاندی کے عوض (ٹھیکے پر) دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، گویا عنوان سابق سے ایک گونہ تعلق ہے، وہ اس طرح کہ زمین کو کچھ مدت تک بٹائی پر لیا، اب اسے حق ہے کہ اس میں جو چاہے کاشت کرے لیکن جب مدت ختم ہو جائے گی تو مالک زمین کو حق ہو گا کہ وہ اپنے درخت اکھاڑ کر یا فصل اٹھا کر خاص زمین مالک کے حوالے کرے، اس لحاظ سے عنوان سابق "قطع اشجار" سے کچھ مناسبت ہے۔ امام بخاری ؒ کے مزاج کے مطابق اس قدر مناسبت ہی کافی ہے۔ (عمدة القاري:16/9) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بٹائی پر زمین دینا جائز ہے لیکن زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار لینے کی شرط لگانا جائز نہیں۔ (3) نقدی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج راوی کے بیان کے مطابق اس وقت نہیں تھا لیکن اسی راوی کا بیان ہے کہ درہم و دینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث:2346) اس موضوع پر مکمل بحث آئندہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت اوروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے (کی پیداوار) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
نقدی کرایہ کا معاملہ اس وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس صورت مذکورہ میں مالک اور کاشتکار ہر دو کے لیے نفع کے ساتھ نقصان کا بھی ہر وقت احتمال تھا۔ اس لیے اس صورت سے اس معاملہ کو منع کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi' bin Khadij (RA): We worked on farms more than anybody else in Medina. We used to rent the land at the yield of specific delimited portion of it to be given to the landlord. Sometimes the vegetation of that portion was affected by blights etc., while the rest remained safe and vice versa, so the Prophet (ﷺ) forbade this practice. At that time gold or silver were not used (for renting the land). If they provided the seeds, they would get so-and-so much. Al-Hasan said, "There is no harm if the land belongs to one but both spend on it and the yield is divided between them." Az-Zuhri had the same opinion. Al-Hasan said, "There is no harm if cotton is picked on the condition of having half the yield." Ibrahim, Ibn Siain, 'Ata', Al-Hakam, Az-Zuhri and Qatada said, "There is no harm in giving the yarn to the weaver to weave into cloth on the basis that one-third or one-fourth (or any other portion) of the cloth is given to the weaver for his labor." Ma'am said, "There is no harm in hiring animals for a definite (fixed) period on the basis that one-third or one-fourth of the products carried by the animals is given to the owner of the animals."