باب: اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: (What is said) about the urine of camels, sheep and other animals and about their folds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے داربرید میں نماز پڑھی ( حالانکہ وہاں گوبر تھا ) اور ایک پہلو میں جنگل تھا۔ پھر انھوں نے کہا یہ جگہ اور وہ جگہ برابر ہیں۔تشریح : دارالبرید کوفہ میں سرکاری جگہ تھی۔ جس میں خلیفہ کے ایلچی قیام کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانوں میں ابوموسیٰ ؓ کوفہ کے حاکم تھے۔ اسی جگہ اونٹ، بکری وغیرہ جانوربھی باندھے جاتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ نے اسی میں نماز پڑھ لی اور صاف جنگل میں جوقریب ہی تھاجانے کی ضرورت نہ سمجھی پھر لوگوں کے دریافت کرنے پر بتلایا کہ مسئلہ کی رو سے یہ جگہ اور وہ صاف جنگل دونوں برابر ہیں اور اس قسم کے چوپایوں کالید اور گوبر نجس نہیں ہے۔
233.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اور انہیں یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں میں جانے کا حکم دیا کہ وہاں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعماال کریں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔ اور جب وہ صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور جانور ہانک کر لے گئے۔ صبح کے وقت (رسول اللہ ﷺ کو جب) یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے، چنانچہ سورج بلند ہوتے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، اس کے بعد گرم سنگلاخ جگہ پر انہیں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابو قلابہ نے فرمایا: ان لوگوں نے چوری کی، خون ناحق کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ انھوں نے اعلانِ جنگ کیا (اس لیے یہ سزا تجویز کی گئی)۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ حیوانات کے بول و بزار کے مسائل بیان کر رہے ہیں کہ تمام ابوال ناپاک نہیں بلکہ جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے، مثلاً: اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس وغیرہ ان کا بول و براز پاک ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے حضرت ابو موسی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے جسے امام بخاری ؒ کے شیخ ابو نعیم نے اپنی تالیف (کتاب الصلوة) میں موصولاً بیان کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انھوں نے کوفے سے باہر دارالبرید میں نماز پڑھائی، جہاں گوبر پڑا ہوا تھا جبکہ پاس ہی میدانی علاقہ بھی موجود تھا اور انھیں کہا گیا کہ آپ اپنے قریب جنگل یا میدانی علاقے میں اس نماز کا اہتمام کر لیں انھوں نے فرمایا: یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔ دراصل حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کوفے کے گورنر تھے اور سرکاری ڈاک کی ترسیل کے لیے شہروں کے درمیان اڈے بنے ہوئے تھے جسے دارالبرید کہا جا تا تھا۔ اس زمانے میں گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ڈاک برداری میں استعمال ہوتے تھے اور دارالبرید میں ان کے باندھنے اور گھاس چارے کا انتظام ہوتا تھا، ان میں گوبر بھی ہوتا اور زمین بھی ان کے پیشاب سے تر رہتی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وہاں نماز پڑھ لیتے تھے۔ یہ کسی مجبوری کے پیش نظر نہیں بلکہ سامنے ہی کھلا میدان تھا۔ اگر کبھی توجہ دلائی جاتی کہ حضرت وہاں نماز پڑھ لیں تو فرماتے محل وقوع کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ عام معاملات میں متشدد ہونے کی حد تک محتاط تھے جن کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے ساتھ ایک بوتل رکھتے تاکہ پیشاب کے چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں، ان کا ایسے مقام پر نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’’ماکول اللحم ‘‘حیوانات کا بول و براز نجس نہیں۔ 2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال حدیث عرنیین ہے، اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں سے متعلق ہے جن کی تعداد آٹھ تھی(حدیث:3018) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب بطور دوا تجویز فرمایا۔ نیز صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ مسلمان اونٹوں کے پیشاب سے علاج کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5781) اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قطعی طور پر اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ حدیث نبوی ہے ۔’’اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3873) صحیح بخاری میں یہ الفاظ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب ہیں۔ (صحیح البخاري، الأشریة، باب:رقم 15) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اونٹوں کے دودھ اور پیشاب میں پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874) معلوم ہوا کہ اونٹوں کا پیشاب حرام نہیں۔ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874) امام مالک ؒ ، امام احمد ؒ، ابن خذیمہ ؒ، ابن منذرؒ، ابن حبان ؒ اور دیگر کئی علمائے سلف کے نزدیک ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ اس کے برعکس امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، اور دیگر کئی علماء کے نزدیک تمام جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے۔ دوسرے قول کے قائلین پیشاب سے پرہیز کرنے کی روایت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے علاوہ جانوروں کا پیشاب بھی ہے، لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں، کیونکہ حلال جانوروں کے پیشاب کا استثنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق دیگرتمام روایات بھی ضعیف ہیں۔ بہرحال جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کاپیشاب نجس نہیں، جیساکہ حدیث الباب سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ اور جس پیشاب سےاجتناب کرنے کا حکم ہے اس سے مراد بھی لوگوں کاپیشاب ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے کہا ہے۔ نیزحدیث (قبرین) اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کاواقعہ بھی اس کا واضح ثبوت ہے، اس کے متعلق جو بھی اعتراضات یا اشکالات پیش کیے گئے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگراونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا اوراس کی بطور دوا بامر مجبوری اجازت دی ہوتی تو کم از کم رسول اللہ ﷺ اس کی وضاحت فرما دیتے اور استعمال کرنے والوں کو ہدایت دیتے کہ اس کے استعمال کے بعد تم نے اپنے منہ دھولینے ہیں، جبکہ ایسی کوئی وضاحت کتب حدیث میں نہیں ملتی، اس کےعلاوہ رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
235
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
233
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
233
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
233
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے داربرید میں نماز پڑھی ( حالانکہ وہاں گوبر تھا ) اور ایک پہلو میں جنگل تھا۔ پھر انھوں نے کہا یہ جگہ اور وہ جگہ برابر ہیں۔تشریح : دارالبرید کوفہ میں سرکاری جگہ تھی۔ جس میں خلیفہ کے ایلچی قیام کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانوں میں ابوموسیٰ ؓ کوفہ کے حاکم تھے۔ اسی جگہ اونٹ، بکری وغیرہ جانوربھی باندھے جاتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ نے اسی میں نماز پڑھ لی اور صاف جنگل میں جوقریب ہی تھاجانے کی ضرورت نہ سمجھی پھر لوگوں کے دریافت کرنے پر بتلایا کہ مسئلہ کی رو سے یہ جگہ اور وہ صاف جنگل دونوں برابر ہیں اور اس قسم کے چوپایوں کالید اور گوبر نجس نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اور انہیں یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں میں جانے کا حکم دیا کہ وہاں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب استعماال کریں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے۔ اور جب وہ صحت مند ہو گئے تو انھوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور جانور ہانک کر لے گئے۔ صبح کے وقت (رسول اللہ ﷺ کو جب) یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے، چنانچہ سورج بلند ہوتے ہی ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، اس کے بعد گرم سنگلاخ جگہ پر انہیں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابو قلابہ نے فرمایا: ان لوگوں نے چوری کی، خون ناحق کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ انھوں نے اعلانِ جنگ کیا (اس لیے یہ سزا تجویز کی گئی)۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ حیوانات کے بول و بزار کے مسائل بیان کر رہے ہیں کہ تمام ابوال ناپاک نہیں بلکہ جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے، مثلاً: اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس وغیرہ ان کا بول و براز پاک ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے حضرت ابو موسی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے جسے امام بخاری ؒ کے شیخ ابو نعیم نے اپنی تالیف (کتاب الصلوة) میں موصولاً بیان کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انھوں نے کوفے سے باہر دارالبرید میں نماز پڑھائی، جہاں گوبر پڑا ہوا تھا جبکہ پاس ہی میدانی علاقہ بھی موجود تھا اور انھیں کہا گیا کہ آپ اپنے قریب جنگل یا میدانی علاقے میں اس نماز کا اہتمام کر لیں انھوں نے فرمایا: یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔ دراصل حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کوفے کے گورنر تھے اور سرکاری ڈاک کی ترسیل کے لیے شہروں کے درمیان اڈے بنے ہوئے تھے جسے دارالبرید کہا جا تا تھا۔ اس زمانے میں گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ڈاک برداری میں استعمال ہوتے تھے اور دارالبرید میں ان کے باندھنے اور گھاس چارے کا انتظام ہوتا تھا، ان میں گوبر بھی ہوتا اور زمین بھی ان کے پیشاب سے تر رہتی، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وہاں نماز پڑھ لیتے تھے۔ یہ کسی مجبوری کے پیش نظر نہیں بلکہ سامنے ہی کھلا میدان تھا۔ اگر کبھی توجہ دلائی جاتی کہ حضرت وہاں نماز پڑھ لیں تو فرماتے محل وقوع کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں، حالانکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ عام معاملات میں متشدد ہونے کی حد تک محتاط تھے جن کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے ساتھ ایک بوتل رکھتے تاکہ پیشاب کے چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں، ان کا ایسے مقام پر نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’’ماکول اللحم ‘‘حیوانات کا بول و براز نجس نہیں۔ 2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کا دوسرا استدلال حدیث عرنیین ہے، اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں سے متعلق ہے جن کی تعداد آٹھ تھی(حدیث:3018) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب بطور دوا تجویز فرمایا۔ نیز صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ مسلمان اونٹوں کے پیشاب سے علاج کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5781) اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قطعی طور پر اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ حدیث نبوی ہے ۔’’اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3873) صحیح بخاری میں یہ الفاظ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب ہیں۔ (صحیح البخاري، الأشریة، باب:رقم 15) اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اونٹوں کے دودھ اور پیشاب میں پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3874) معلوم ہوا کہ اونٹوں کا پیشاب حرام نہیں۔ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے بطور دوا تجویز نہ فرماتے، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874) امام مالک ؒ ، امام احمد ؒ، ابن خذیمہ ؒ، ابن منذرؒ، ابن حبان ؒ اور دیگر کئی علمائے سلف کے نزدیک ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔ اس کے برعکس امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، اور دیگر کئی علماء کے نزدیک تمام جانوروں کا پیشاب ناپاک ہے۔ دوسرے قول کے قائلین پیشاب سے پرہیز کرنے کی روایت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے علاوہ جانوروں کا پیشاب بھی ہے، لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں، کیونکہ حلال جانوروں کے پیشاب کا استثنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کے ناپاک ہونے کے متعلق دیگرتمام روایات بھی ضعیف ہیں۔ بہرحال جن حیوانات کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کاپیشاب نجس نہیں، جیساکہ حدیث الباب سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ اور جس پیشاب سےاجتناب کرنے کا حکم ہے اس سے مراد بھی لوگوں کاپیشاب ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے کہا ہے۔ نیزحدیث (قبرین) اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کاواقعہ بھی اس کا واضح ثبوت ہے، اس کے متعلق جو بھی اعتراضات یا اشکالات پیش کیے گئے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگراونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا اوراس کی بطور دوا بامر مجبوری اجازت دی ہوتی تو کم از کم رسول اللہ ﷺ اس کی وضاحت فرما دیتے اور استعمال کرنے والوں کو ہدایت دیتے کہ اس کے استعمال کے بعد تم نے اپنے منہ دھولینے ہیں، جبکہ ایسی کوئی وضاحت کتب حدیث میں نہیں ملتی، اس کےعلاوہ رسول اللہ ﷺ نے حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الطب، حدیث:3874)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے دارالبرید اور سرقین میں نماز ادا کی جبکہ جنگل، یعنی میدانی علاقہ ان کے پہلو میں تھا اور انہوں نے فرمایا: یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے حماد بن زید سے، وہ ایوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول کریم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول کریم ﷺ کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ حضور ﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انھیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔
حدیث حاشیہ:
یہ آٹھ آدمی تھے، چارقبیلہ عرینہ کے اور تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلے کا۔ ان کو مدینہ سے چھ میل دور ذوالمجدا نامی مقام پر بھیجا گیا۔ جہاں بیت المال کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ ان لوگوں نے تندرست ہونے پر ایسی غداری کی کہ چرواہوں کو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں اور اونٹوں کو لے بھاگے۔ اس لیے قصاص میں ان کو ایسی ہی سخت سزا دی گئی۔ حکمت اور دانائی اور قیام امن کے لیے ایسا ضروری تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ کوئی وحشیانہ سزا نہ تھی جو غیرمسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ذرا ان کو خود اپنی تاریخ ہائے قدیم کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس زمانے میں ان کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں کیسی کیسی سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اسلام نے اصول قصاص پر ہدایات دے کر ایک پائیدار امن قائم کیا ہے۔ جس کا بہترین نمونہ آج بھی حکومت عربیہ سعودیہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ والحمدللّٰہ علی ذلك أیدهم اللّٰہ بنصرہ العزیز آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qilaba (RA): Anas (RA) said, "Some people of 'Ukl or 'Uraina tribe came to Madinah and its climate did not suit them. So the Prophet (ﷺ) ordered them to go to the herd of (Milch) camels and to drink their milk and urine (as a medicine). So they went as directed and after they became healthy, they killed the shepherd of the Prophet (ﷺ) and drove away all the camels. The news reached the Prophet (ﷺ) early in the morning and he sent (men) in their pursuit and they were captured and brought at noon. He then ordered to cut their hands and feet (and it was done), and their eyes were branded with heated pieces of iron, they were put in 'Al-Harra' and when they asked for water, no water was given to them." Abu Qilaba said, "Those people committed theft and murder, became infidels after embracing Islam and fought against Allah and His Apostle."