مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2330.
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے انھوں نے حضرت طاوس سے کہا: بہتر ہے کہ تم بٹائی پر زمین دیناچھوڑ دو کیونکہ لوگوں کے بقول نبی کریم ﷺ نے بٹائی کامعاملہ کرنے سےمنع فرمایا ہے۔ حضرت طاوس نے جواب دیا: اے عمرو!میں لوگوں کو زمین دے کر انھیں فائدہ پہنچاتا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس (مزارعت) سے نہیں روکا تھا بلکہ یہ فرمایا تھا: ’’تم میں سے کوئی شخص زمین اپنے بھائی کو یوں ہی مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کا متعین محصول وصول کرے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا کیونکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔ مزارعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ پیداوار کے طے شدہ حصے پر کسی کو زمین دی جائے۔ قبل ازیں یہ صورت بیان کی گئی تھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کے عوض طے شدہ اجرت لی جائے۔ وہ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ کتب حدیث میں وضاحت ہے کہ امام طاؤس زمین سونے یا چاندی کے عوض اجرت پر دینے کو ناپسند کرتے تھے لیکن تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض دینے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ امام مجاہد نے ان سے کہا کہ رافع بن خدیج کے بیٹے کے پاس جاؤ ان سے رافع بن خدیج کی بیان کردہ حدیث سنو۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے علم ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں اسے کیوں عمل میں لاؤں لیکن مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے۔ آگے مذکورہ حدیث کا حوالہ ہے۔ (2) حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کو یوں ہی کاشت کے لیے مفت دے دے، یعنی یہ فضیلت اور احسان کا طریقہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے معاملے کی حقیقت کو خوب سمجھا جس سے اس مسئلے کی وضاحت ہو گئی۔ (فتح الباري:19/5) ایک روایت میں نہی کی علت ایک دوسرے انداز سے بیان ہوئی ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کو معاف فرمائے! میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جاننے والا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس لڑتے جھگڑتے ہوئے آئے تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارا یہی حال ہے تو زمینوں کو کرائے پر مت دیا کرو۔‘‘ حضرت رافع ؓ نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بات کو برا خیال کیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں فساد اور شر پیدا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے آپ نے اسے اچھا خیال نہیں کیا لیکن اس کی قانونی حیثیت وہی ہے کہ زمین کا مالک بااختیار ہے اسے خود کاشت کرے یا بٹائی اور کرائے پر کسی کو دے یا مفت میں کسی کو دے دے۔ (عمدة القاري:25/9) (3) اگر آدمی اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی نہ کر سکے تو اسے اجرت یا بٹائی پر دینے کی قانونی اجازت ہے لیکن اس قانونی اجازت کے باوجود اخلاقی اعتبار سے یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر وہ کھیتی باڑی نہیں کر پاتا اور اس کے پاس دوسرا ذریعۂ معاش بھی ہے اور اس کا کوئی دوسرا بھائی بالکل بے سہارا اور بے وسیلہ ہے تو وہ اپنی زمین بغیر کسی معاوضے کے دوسرے بھائی کو دے دے تاکہ وہ اپنی ضروریات اس سے پوری کر سکے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے ارشاد نبوی کی اخلاقی حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2254
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2330
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2330
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2330
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے انھوں نے حضرت طاوس سے کہا: بہتر ہے کہ تم بٹائی پر زمین دیناچھوڑ دو کیونکہ لوگوں کے بقول نبی کریم ﷺ نے بٹائی کامعاملہ کرنے سےمنع فرمایا ہے۔ حضرت طاوس نے جواب دیا: اے عمرو!میں لوگوں کو زمین دے کر انھیں فائدہ پہنچاتا ہوں۔ اور لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس (مزارعت) سے نہیں روکا تھا بلکہ یہ فرمایا تھا: ’’تم میں سے کوئی شخص زمین اپنے بھائی کو یوں ہی مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کا متعین محصول وصول کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا کیونکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔ مزارعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ پیداوار کے طے شدہ حصے پر کسی کو زمین دی جائے۔ قبل ازیں یہ صورت بیان کی گئی تھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کے عوض طے شدہ اجرت لی جائے۔ وہ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ کتب حدیث میں وضاحت ہے کہ امام طاؤس زمین سونے یا چاندی کے عوض اجرت پر دینے کو ناپسند کرتے تھے لیکن تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض دینے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ امام مجاہد نے ان سے کہا کہ رافع بن خدیج کے بیٹے کے پاس جاؤ ان سے رافع بن خدیج کی بیان کردہ حدیث سنو۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے علم ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں اسے کیوں عمل میں لاؤں لیکن مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے۔ آگے مذکورہ حدیث کا حوالہ ہے۔ (2) حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کو یوں ہی کاشت کے لیے مفت دے دے، یعنی یہ فضیلت اور احسان کا طریقہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے معاملے کی حقیقت کو خوب سمجھا جس سے اس مسئلے کی وضاحت ہو گئی۔ (فتح الباري:19/5) ایک روایت میں نہی کی علت ایک دوسرے انداز سے بیان ہوئی ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کو معاف فرمائے! میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جاننے والا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس لڑتے جھگڑتے ہوئے آئے تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارا یہی حال ہے تو زمینوں کو کرائے پر مت دیا کرو۔‘‘ حضرت رافع ؓ نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بات کو برا خیال کیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں فساد اور شر پیدا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے آپ نے اسے اچھا خیال نہیں کیا لیکن اس کی قانونی حیثیت وہی ہے کہ زمین کا مالک بااختیار ہے اسے خود کاشت کرے یا بٹائی اور کرائے پر کسی کو دے یا مفت میں کسی کو دے دے۔ (عمدة القاري:25/9) (3) اگر آدمی اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی نہ کر سکے تو اسے اجرت یا بٹائی پر دینے کی قانونی اجازت ہے لیکن اس قانونی اجازت کے باوجود اخلاقی اعتبار سے یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر وہ کھیتی باڑی نہیں کر پاتا اور اس کے پاس دوسرا ذریعۂ معاش بھی ہے اور اس کا کوئی دوسرا بھائی بالکل بے سہارا اور بے وسیلہ ہے تو وہ اپنی زمین بغیر کسی معاوضے کے دوسرے بھائی کو دے دے تاکہ وہ اپنی ضروریات اس سے پوری کر سکے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے ارشاد نبوی کی اخلاقی حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہ عمرو بن دینار نے کہا کہ میں نے طاؤس سے عرض کیا، کاش ! آپ بٹائی کا معاملہ چھوڑ دیتے، کیوں کہ ان لوگوں (رافع بن خدیج اور جابر بن عبداللہ ؓ وغیرہ) کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس پر طاؤس نے کہا کہ میں تو لوگوں کو زمین دیتا ہوں اور ان کا فائدہ کرتا ہوں۔ اور صحابہ میں جو بڑے عالم تھے انہوں نے مجھے خبر دی ہے۔ آپ کی مراد ابن عباس ؓ سے تھی کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے نہیں روکا۔ بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو (اپنی زمین) مفت دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا محصول لے۔
حدیث حاشیہ:
امام طحاوی ؒنے زید بن ثابت ؓ سے نکالا۔ انہوں ے کہا، اللہ رافع بن خدیج کو بخشے، میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں۔ ہوا یہ تھا کہ دو انصاری آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس لڑتے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔ رافع نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرایہ پر مت دیا کرو۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ نے کرایہ پر دینے کو منع نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے یہ برا سمجھا کہ اس کے سبب سے لوگوں میں فساد اور جھگڑا پیدا ہو۔ وہاں یہ مفہوم بھی درست ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین بے کار پڑی ہوئی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی کو بطور بخشش دے دے کہ وہ اس زمین سے فائدہ حاصل کرسکے۔ ایسے قانونی حیثیت میں تو بہرحال وہ اس کا مالک ہے۔ اور بٹائی یا کرایہ پر بھی دے سکتا ہے۔ لفظ مخابرہ بٹائی پر کسی کے کھیت کو جوتنے اور بونے کو کہتے ہیں۔ جب کہ بیج بھی کام کرنے والے ہی کا ہو۔ عام اصطلاح میں اسے بٹائی کہا جاتا ہے۔ خبرہ حصہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی سے مخابرہ نکلا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ لفظ خیبر سے ماخود ہے۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر والوں سے یہی معاملہ کیا تھا کہ آدھی پیداوار وہ لے لیں آدھی آپ کو دیں۔ بعض نے کہا کہ یہ لفظ خبار سے نکلا ہے جس کے معنی نرم زمین کے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ فدفعنا في خبار من الأرضیعنی ہم نرم زمین میں پھینک دیئے گئے۔ نووی ؒنے کہا کہ مخابرہ اور مزارعہ میں یہ فرق ہے کہ مخابرہ میں تخم عامل کا ہوتا ہے نہ کہ مالک زمین کا۔ اور مزارعہ میں تخم مالک زمین کا ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): I said to Tawus, "I wish you would give up Mukhabara (Share-cropping), for the people say that the Prophet (ﷺ) forbade it." On that Tawus replied, "O 'Amr! I give the land to share-croppers and help them. No doubt; the most learned man, namely Ibn 'Abbas (RA) told me that the Prophet (ﷺ) had not forbidden it but said, 'It is more beneficial for one to give his land free to one's brother than to charge him a fixed rental."