باب : صحابہ کرام کے اوقاف اور خراجی زمین اور اس کی بٹائی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: The Auqaf, Kharaj, share-cropping and other agreements)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا تھا ( جب وہ اپنا ایک کھجور کا باغ للہ وقف کر رہے تھے ) اصل زمین کو وقف کردے، اس کو کوئی بیچ نہ سکے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاتا رہے چنانچہ عمر ؓ نے ایسا ہی کیا۔ابن بطال نے کہا اس باب کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ آنحضرت ﷺکے بعد بھی آپ ﷺکے اوقاف میں اسی طرح مزارعت کرتے رہے جیسے خیبر کے یہودی کیا کرتے تھے۔ تشریح : یہ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری نے کتاب الوصایا میں نکالا کہ حضرت عمر ؓنے اپنا ایک باغ جس کو ثمغ کہتے تھے، صدقہ کر دیا اور آنحضرتﷺسے عرض کیا، میں نے کچھ مال کمایا ہے، میں چاہتا ہوںکہ اس کو صدقہ کر وں۔ وہ مال بہت عمدہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی اصل صدقہ کر دے نہ وہ بیع ہو سکے نہ ہبہ، نہ اس میں ترکہ ہو بلکہ اس کا میوہ خیرات ہوا کرے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اسی طرح اللہ کی راہ میں یعنی مجاہدین اور مساکین اور غلاموں کے آزاد کرانے اور مہمانوں اور مسافروں اور ناطے والوں کے لیے صدقہ کر دیا۔ اور یہ اجازت دی کہ جو اس کا متولی ہو وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے۔ اپنے دوستوں کو کھلائے، لیکن اس میں سے دولت جمع نہ کرے۔ باب میں اور حدیث باب میں بنجر زمین کی آباد کاری کا ذکر ہے۔ طحاوی نے کہا بنجر وہ زمین ہے جو کسی کی ملک نہ ہو، نہ شہر اور نہ بستی کے متعلق ہو۔ آج کے حالات کے تحت اس تعریف سے کوئی زمین ایسی بنجر نہیں رہتی جو اس باب یا حدیث کے ذیل آسکے۔ اس لیے کہ آج زمین کا ایک ایک چپہ خواہ وہ بنجر در بنجر ہی کیوں نہ ہو وہ حکومت کی ملکیت میں داخل ہے۔ یا کسی گاؤں بستی سے متعلق ہے تو اس کی ملکیت میں شامل ہے۔ بہر صورت مفہوم حدیث اور باب اپنی جگہ بالکل آج بھی جاری ہے کہ بنجر زمینوں کے آباد کرنے والوں کا حق ہے۔ اور موجودہ حکومت یا اہل قریہ کا فرض ہے کہ وہ زمین اسی آباد کرنے والے کے نام منتقل کردیں۔ اس سے زمین کی آباد کاری کے لیے ہمت افزائی مقصود ہے۔ اور یہ ہر زمانہ میں انسانیت کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔ جس قدر زمین زیادہ آباد ہوگی بنی نوع انسان کو اس سے زیادہ نفع پہنچے گا۔ لفظ ”ارضا مواتا“ اس بنجر زمین پر بولا جاتا ہے ہے جس میں کھیتی نہ ہوتی ہو۔ اس کے آباد کرنے کا مطلب یہ کہ اس میں پانی لایا جائے۔ پھر اس میں باغ لگائے جائیں یا کھیتی کی جائے تو اس کا حق ملکیت اس کے آباد کرنے والے کے لیے ثابت ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت یا اہل بستی اگر ایسی زمین کو اس سے چھین کر کسی اور کو دیں گے تو وہ عنداللہ ظالم ٹھہریں گے۔
2334.
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بھی بستی فتح کرتا اسے وہاں کے مجاہدین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر (فتح کرنے کے بعد اسے) کیا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں جب ایران اور عراق کے علاقے فتح ہوئے تو انہوں نے وہاں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہ کیں بلکہ وہاں کے اہل ذمہ کے پاس بطور مزارعت رہنے دیں، البتہ ان کی پیداوار سے مسلمان مستفید ہوتے تھے۔ ان زمینوں کی حکومت کی ملکیت رکھا کیونکہ اگر مفتوحہ علاقوں کی زمین بانٹ دی جاتی تو بعد میں آنے والے لوگ کہاں جاتے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح تک تمام مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کیں تو حضرت عمر ؓ نے شام کی زمین کو بحق سرکار کیوں روکا؟ امام بخاری ؒ نے ترجمہ الباب میں حضرت عمر ؓ کی حدیث لا کر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ خلیفہ کو حق ہے کہ مصلحت کے پیش نظر اس میں ردوبدل کرے جس طرح رسول اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کے صدقے کو مسلمانوں کی مصلحت کے لیے بحق سرکار وقف کیا اسی طرح حضرت عمر ؓ نے شام کی زمینیں مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر مزارعت پر دے دیں۔ (3) جب وقف زمینیں مزارعت پر دی جا سکتی ہیں تو مملوکہ زمینیں بھی دی جا سکتیں ہیں کیونکہ ان دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2258
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2334
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2334
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2334
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں خیبر میں ثمغ نامی باغ صدقہ کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے فرمایا: "اصل صدقہ، یعنی وقف کر دو کہ اسے فروخت نہ کیا جائے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جائے، نیز اس میں وراثت بھی جاری نہ ہو، البتہ اس کی پیداوار تقسیم ہوا کرے۔" (صحیح البخاری،الوصایا،حدیث:2764)
اور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا تھا ( جب وہ اپنا ایک کھجور کا باغ للہ وقف کر رہے تھے ) اصل زمین کو وقف کردے، اس کو کوئی بیچ نہ سکے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاتا رہے چنانچہ عمر ؓ نے ایسا ہی کیا۔ابن بطال نے کہا اس باب کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ آنحضرت ﷺکے بعد بھی آپ ﷺکے اوقاف میں اسی طرح مزارعت کرتے رہے جیسے خیبر کے یہودی کیا کرتے تھے۔ تشریح : یہ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری نے کتاب الوصایا میں نکالا کہ حضرت عمر ؓنے اپنا ایک باغ جس کو ثمغ کہتے تھے، صدقہ کر دیا اور آنحضرتﷺسے عرض کیا، میں نے کچھ مال کمایا ہے، میں چاہتا ہوںکہ اس کو صدقہ کر وں۔ وہ مال بہت عمدہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی اصل صدقہ کر دے نہ وہ بیع ہو سکے نہ ہبہ، نہ اس میں ترکہ ہو بلکہ اس کا میوہ خیرات ہوا کرے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اسی طرح اللہ کی راہ میں یعنی مجاہدین اور مساکین اور غلاموں کے آزاد کرانے اور مہمانوں اور مسافروں اور ناطے والوں کے لیے صدقہ کر دیا۔ اور یہ اجازت دی کہ جو اس کا متولی ہو وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے۔ اپنے دوستوں کو کھلائے، لیکن اس میں سے دولت جمع نہ کرے۔ باب میں اور حدیث باب میں بنجر زمین کی آباد کاری کا ذکر ہے۔ طحاوی نے کہا بنجر وہ زمین ہے جو کسی کی ملک نہ ہو، نہ شہر اور نہ بستی کے متعلق ہو۔ آج کے حالات کے تحت اس تعریف سے کوئی زمین ایسی بنجر نہیں رہتی جو اس باب یا حدیث کے ذیل آسکے۔ اس لیے کہ آج زمین کا ایک ایک چپہ خواہ وہ بنجر در بنجر ہی کیوں نہ ہو وہ حکومت کی ملکیت میں داخل ہے۔ یا کسی گاؤں بستی سے متعلق ہے تو اس کی ملکیت میں شامل ہے۔ بہر صورت مفہوم حدیث اور باب اپنی جگہ بالکل آج بھی جاری ہے کہ بنجر زمینوں کے آباد کرنے والوں کا حق ہے۔ اور موجودہ حکومت یا اہل قریہ کا فرض ہے کہ وہ زمین اسی آباد کرنے والے کے نام منتقل کردیں۔ اس سے زمین کی آباد کاری کے لیے ہمت افزائی مقصود ہے۔ اور یہ ہر زمانہ میں انسانیت کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔ جس قدر زمین زیادہ آباد ہوگی بنی نوع انسان کو اس سے زیادہ نفع پہنچے گا۔ لفظ ”ارضا مواتا“ اس بنجر زمین پر بولا جاتا ہے ہے جس میں کھیتی نہ ہوتی ہو۔ اس کے آباد کرنے کا مطلب یہ کہ اس میں پانی لایا جائے۔ پھر اس میں باغ لگائے جائیں یا کھیتی کی جائے تو اس کا حق ملکیت اس کے آباد کرنے والے کے لیے ثابت ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت یا اہل بستی اگر ایسی زمین کو اس سے چھین کر کسی اور کو دیں گے تو وہ عنداللہ ظالم ٹھہریں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بھی بستی فتح کرتا اسے وہاں کے مجاہدین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر (فتح کرنے کے بعد اسے) کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں جب ایران اور عراق کے علاقے فتح ہوئے تو انہوں نے وہاں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہ کیں بلکہ وہاں کے اہل ذمہ کے پاس بطور مزارعت رہنے دیں، البتہ ان کی پیداوار سے مسلمان مستفید ہوتے تھے۔ ان زمینوں کی حکومت کی ملکیت رکھا کیونکہ اگر مفتوحہ علاقوں کی زمین بانٹ دی جاتی تو بعد میں آنے والے لوگ کہاں جاتے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح تک تمام مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کیں تو حضرت عمر ؓ نے شام کی زمین کو بحق سرکار کیوں روکا؟ امام بخاری ؒ نے ترجمہ الباب میں حضرت عمر ؓ کی حدیث لا کر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ خلیفہ کو حق ہے کہ مصلحت کے پیش نظر اس میں ردوبدل کرے جس طرح رسول اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کے صدقے کو مسلمانوں کی مصلحت کے لیے بحق سرکار وقف کیا اسی طرح حضرت عمر ؓ نے شام کی زمینیں مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر مزارعت پر دے دیں۔ (3) جب وقف زمینیں مزارعت پر دی جا سکتی ہیں تو مملوکہ زمینیں بھی دی جا سکتیں ہیں کیونکہ ان دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: "اصل زمین کو وقف کردو کہ اس فروخت نہ کیا جائے لیکن اس کی پیداوار کو خرچ کیاجائے۔ "حضرت عمر ؓ نے اس ہدایت کے مطابق اسے وقف کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرحمن بن مہدی نے خبردی، انہیں امام مالک نے، انہیں زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر ؓ نے فرمایا، اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جتنے شہر بھی فتح کرتا، انہیں فتح کرنے والوں میں تقسیم کر تا جاتا، بالکل اسی طرح جس طرح نبی کریم ﷺ نے خیبر کی زمین تقسیم فرما دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایسے بہت سے مسلمان لوگ پیدا ہوں گے جو محتاج ہوں گے۔ اگر میں تمام مفتوحہ ممالک کو غازیوں میں تقسیم کرتا چلا جاؤں تو آئندہ محتاج مسلمان محروم رہ جائیں گے۔ یہ حضرت عمر ؓ نے اس وقت فرمایا جب سواد کا ملک فتح ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Aslam from his father (RA): Umar said, "But for the future Muslim generations, I would have distributed the land of the villages I conquer among the soldiers as the Prophet (ﷺ) distributed the land of Khaibar."