Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: Cultivating the neglected land)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت علی ؓ نے کوفہ میں ویران علاقوں کو آباد کرنے کے لءے یہی حکم دیا تھا۔ اور حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ جو کوءی بجنر زمین کو آباد کرے، وہ اسی کی ہو جاتی ہے۔ اور حضرت عمر ؓاور ابن عوف ؓسے بھی یہی روایت ہے۔ البتہ ابن عوفؓ نے آنحضرت ﷺسے (اپنی روایت میں) یہ زیادتی کی ہے کہ بشرطیکہ وہ (غیر آباد زمین) کسی مسلمان کی نہ ہو، اور ظالم رگ والے کا زمین میں کوءی حق نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نبی کریمﷺ سے ایک ایسی ہی روایت ہے۔
2335.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص ایسی غیرآباد زمین کو آباد کرے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے اپنی خلافت میں اس کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔
تشریح:
(1) زمین کو کئی طرح سے آباد کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اسے کھیتی باڑی کے لیے تیار کیا یا وہاں باغ لگایا، اسی طرح اس زمین کو کسی فیکٹری یا کارخانے کے لیے استعمال کیا یا وہاں مکانات تعمیر کر لیے، نیز مویشیوں کی چراگاہیں بھی اس کی آبادی میں شامل ہیں۔ (2) دور حاضر میں زمین کے مالک زمیندار ہیں یا حکومت، اسے آباد کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوگی، اس کے بعد اگر اسے آباد کر لیا جائے تو وہ اس زمین کا زیادہ حق دار ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کرنا افراتفری کا باعث ہو سکتا ہے، نیز محض قبضہ کرنے سے حق ملکیت ثابت نہیں ہو گا۔ روایت میں حضرت عمر ؓ کے فیصلے کا بھی ذکر ہے، حضرت عمر ؓ نے اعلان کرایا تھا کہ جس شخص نے تین سال تک زمین کو معطل رکھا اور اسے آباد نہ کیا، اس کے بعد کسی اور نے آباد کر لیا تو وہ اس کی ملکیت ہو گی، اس بنا پر اگر کوئی آدمی بنجر زمین تین سال تک روکے رکھے اور اسے آباد نہ کرے تو حکومت اس سے واپس لے کر کسی دوسرے کو دے سکتی ہے، جو اسے آباد کرے۔ زمین پر قبضہ کر لینا اسے آباد کرنا نہیں ہے۔ (3) اس سلسلے میں ایک فیصلہ درج ذیل ہے جو حضرت عمر ؓ نے کیا تھا۔ بصری میں رہنے والا ابو عبداللہ نامی ایک شخص سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے بتایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین خالی پڑی ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان نہیں اور نہ وہ خراجی ہی ہے، اگر آپ مجھے الاٹ کر دیں تو وہاں بانس اور زیتون کاشت کر کے اسے آباد کر لوں۔ آپ نے بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ ؓ کو لکھا کہ وہاں جا کر زمین کا معائنہ کریں اگر واقعہ یہی ہے تو وہ زمین اسے الاٹ کر دیں۔ (فتح الباري:26/9) (4) اس واقعہ سے بھی معلوم ہوا کہ فالتو اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2259
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2335
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2335
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2335
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
بنجر زمین وہ ہوتی ہے جو کسی کی ملکیت نہ ہو اور وہاں کاشت کے ذرائع بھی نہ ہوں۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ ایسی اراضی کو آباد کرے، اگر وہ خود یہ کام نہ کر سکے تو وہ ایسے لوگوں کو الاٹ کر دی جائیں جو اسے آباد کریں۔ زمین کی آبادکاری کے لیے ہمت افزائی کی ضرورت ہے۔ اسے آباد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پانی کا بندوبست کیا جائے، وہاں باغات لگائے جائیں یا اسے کاشت کیا جائے۔ یہ کام کرنے والے کے لیے حق ملکیت ثابت ہو جاتا ہے۔ اگر حکومت ایسی زمین چھین کر کسی دوسرے کے نام الاٹ کرتی ہے تو وہ عنداللہ ظالم ہو گی۔ محض قبضہ کر لینے سے حق ملکیت ثابت نہ ہو گا جب تک اسے آباد نہ کیا جائے، بہرحال فالتو زمینوں کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے کیونکہ آج ملک کا چپہ چپہ حکومت وقت کی ملکیت ہے۔ حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنجر زمینوں کی آباد کاری اور ان کی ملکیت حکومت وقت کی اجازت سے وابستہ ہے۔ آج بیشتر ممالک میں بے آباد زمینوں کے متعلق یہی قانون نافذ ہے جو بے آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ہمیں موصولاً نہیں ملا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں ذکر کیا ہے۔ (الموطا للامام مالک:2/264،حدیث:1490) اور حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کی ہے، (السنن الکبریٰ للبیھقی:6/142) نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ (مسند احمد:3/304)
اور حضرت علی ؓ نے کوفہ میں ویران علاقوں کو آباد کرنے کے لءے یہی حکم دیا تھا۔ اور حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ جو کوءی بجنر زمین کو آباد کرے، وہ اسی کی ہو جاتی ہے۔ اور حضرت عمر ؓاور ابن عوف ؓسے بھی یہی روایت ہے۔ البتہ ابن عوفؓ نے آنحضرت ﷺسے (اپنی روایت میں) یہ زیادتی کی ہے کہ بشرطیکہ وہ (غیر آباد زمین) کسی مسلمان کی نہ ہو، اور ظالم رگ والے کا زمین میں کوءی حق نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نبی کریمﷺ سے ایک ایسی ہی روایت ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص ایسی غیرآباد زمین کو آباد کرے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے اپنی خلافت میں اس کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) زمین کو کئی طرح سے آباد کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اسے کھیتی باڑی کے لیے تیار کیا یا وہاں باغ لگایا، اسی طرح اس زمین کو کسی فیکٹری یا کارخانے کے لیے استعمال کیا یا وہاں مکانات تعمیر کر لیے، نیز مویشیوں کی چراگاہیں بھی اس کی آبادی میں شامل ہیں۔ (2) دور حاضر میں زمین کے مالک زمیندار ہیں یا حکومت، اسے آباد کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوگی، اس کے بعد اگر اسے آباد کر لیا جائے تو وہ اس زمین کا زیادہ حق دار ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ اقدام کرنا افراتفری کا باعث ہو سکتا ہے، نیز محض قبضہ کرنے سے حق ملکیت ثابت نہیں ہو گا۔ روایت میں حضرت عمر ؓ کے فیصلے کا بھی ذکر ہے، حضرت عمر ؓ نے اعلان کرایا تھا کہ جس شخص نے تین سال تک زمین کو معطل رکھا اور اسے آباد نہ کیا، اس کے بعد کسی اور نے آباد کر لیا تو وہ اس کی ملکیت ہو گی، اس بنا پر اگر کوئی آدمی بنجر زمین تین سال تک روکے رکھے اور اسے آباد نہ کرے تو حکومت اس سے واپس لے کر کسی دوسرے کو دے سکتی ہے، جو اسے آباد کرے۔ زمین پر قبضہ کر لینا اسے آباد کرنا نہیں ہے۔ (3) اس سلسلے میں ایک فیصلہ درج ذیل ہے جو حضرت عمر ؓ نے کیا تھا۔ بصری میں رہنے والا ابو عبداللہ نامی ایک شخص سیدنا عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے بتایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین خالی پڑی ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان نہیں اور نہ وہ خراجی ہی ہے، اگر آپ مجھے الاٹ کر دیں تو وہاں بانس اور زیتون کاشت کر کے اسے آباد کر لوں۔ آپ نے بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ ؓ کو لکھا کہ وہاں جا کر زمین کا معائنہ کریں اگر واقعہ یہی ہے تو وہ زمین اسے الاٹ کر دیں۔ (فتح الباري:26/9) (4) اس واقعہ سے بھی معلوم ہوا کہ فالتو اور بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ نے کوفہ کی بنجر زمینوں کے متعلق یہی رائے دی۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا: جس نے غیر آباد زمین آباد کی وہی اس کا حقدار ہے۔ حضرت عمرو بن عوف(مزنی) ؓ سے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس بات کو نقل کیا ہے۔ انھوں(حضرت عمروؓ )نے مزید یہ نقل کیا: "بشرط یہ کہ وہ زمین کسی مسلمان کا حق نہ ہو، نیز کسی ظالم شخص کا اس میں کوئی حق نہیں۔ "اس کے متعلق حضرت جابرؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس نے کوئی ایسی زمین آباد کی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حق دار ہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں یہی فیصلہ کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کے ارشادات سے یہ امر ظاہر ہے کہ ایسی بنجر زمینوں کی آبادکاری ، پھر ان کی ملکیت ، یہ جملہ امور حکومت وقت کی اجازت سے وابستہ ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے جو فیصلہ کیا تھا آج بھی بیشتر ممالک میں یہی قانون نافذ ہے ۔ جو غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ عروہ کے اثر کو امام مالک ؒ نے موطا میں وصل کیا ۔ اور اس کی دوسری روایت میں مذکور ہے جس کو ابوعبید قاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں نکالا کہ لوگ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں زمینوں کو روکنے لگے ، تب آپ نے یہ قانون نافذ کیا کہ جو کوئی ناآباد زمین کو آباد کرے گا وہ اس کی ہو جائے گی ۔ مطلب یہ تھا کہ محض قبضہ کرنے یا روکنے سے ایسی زمین پر حق ملکیت ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کو آباد نہ کرے ۔ حافظ صاحب نے بحوالہ طحاوی نقل فرمایا ہے کہ خرج رجل من أهل البصرة یقال له أبوعبداللہ إلی عمر فقال إن بأرض البصرة أرضا لا تضر بأحد من المسلمین و لیست بأرض خراج فإن شئت أن تقطعنیها أتخذها قضبا و زیتونا فکتب عمر إلی أبي موسیٰ إن کانت کذلك فاقطعها إیاہ۔ (فتح) یعنی بصرہ کا باشندہ ابوعبداللہ نامی حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ بصرہ میں ایک ایسی زمین پڑی ہوئی ہے کہ جس سے کسی مسلمان کو کوئی ضرر نہیں ہے ۔ نہ وہ خراجی ہے ۔ اگر آپ اسے مجھے دے دیں تو میں اس میں زیتون وغیرہ کے درخت لگالوں گا ۔ آپ نے عامل بصرہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ جاکر اس زمین کو دیکھیں ۔ اگر واقعہ یہی ہے تو اسے اس شخص کو دے دیں ۔ معلوم ہوا کہ فالتو زمین کو آباد کرنے کے لیے حکومت وقت کی اجازت ضروری ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said, "He who cultivates land that does not belong to anybody is more rightful (to own it)." 'Urwa said, "Umar gave the same verdict in his Caliphate."