مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2336.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت ذوالحلیفہ وادی کے نشیب میں آرام کے لیے اترے تو آپ سے خواب میں کہا گیا: آپ مبارک وادی میں ہیں۔ (راوی حدیث) موسیٰ بن عقبہ نے کہا: حضرت سالم نے ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا جہاں حضرت ابن عمر ؓ بٹھایا کرتے تھے۔ وہ اسی جگہ کا قصد کررہے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ نے پڑاؤ کیاتھا۔ یہ جگہ وادی کے نشیب میں واقع مسجد کے نیچے تھی۔ یعنی وادی عقیق اور راستے کے درمیان واقع تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2260
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2336
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2336
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2336
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت ذوالحلیفہ وادی کے نشیب میں آرام کے لیے اترے تو آپ سے خواب میں کہا گیا: آپ مبارک وادی میں ہیں۔ (راوی حدیث) موسیٰ بن عقبہ نے کہا: حضرت سالم نے ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا جہاں حضرت ابن عمر ؓ بٹھایا کرتے تھے۔ وہ اسی جگہ کا قصد کررہے تھے جہاں رسول اللہ ﷺ نے پڑاؤ کیاتھا۔ یہ جگہ وادی کے نشیب میں واقع مسجد کے نیچے تھی۔ یعنی وادی عقیق اور راستے کے درمیان واقع تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ نے اور ان سے ان کے باپ نے کہ نبی کریم ﷺ نے (مکہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے) جب ذو الحلیفہ میں نالہ کے نشیب میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا تو آپ سے خواب میں کہا گیا کہ آپ اس وقت ایک مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ بن عقبہ ( راوی حدیث ) نے بیان کیا کہ سالم (بن عبداللہ بن عمر ؓ) نے بھی ہمارے ساتھ وہیں اونٹ بٹھایا۔ جہاں عبداللہ بن عمر ؓ بٹھایا کرتے تھے، تاکہ اس جگہ قیام کر سکیں، جہاں نبی کریم ﷺ نے قیام فرمایا تھا۔ یہ جگہ وادی عقیق کی مسجد سے نالہ کے نشیب میں ہے۔ وادی عقیق اور راستے کے درمیا ن میں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): While the Prophet (ﷺ) was passing the night at his place of rest in Dhul-Hulaifa in the bottom of the valley (of Aqiq), he saw a dream and it was said to him, "You are in a blessed valley." Musa said, "Salim let our camels kneel at the place where 'Abdullah used to make his camel kneel, seeking the place where Allah's Apostle (ﷺ) used to take a rest, which is situated below the mosque which is in the bottom of the valley; it is midway between the mosque and the road."