باب: نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: To share the yields and fruits)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2344.
پھر انہیں حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث بتائی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے تو وہ خود حضرت رافع ؓ کے پاس گئے۔ (حضرت نافع کہتے ہیں کہ) میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ انھوں نے دریافت کیا تو حضرت رافع ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنے کھیت اس پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کناروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2266.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2344
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2344
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2344
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کھیتی کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں باہمی اشتراک و امداد کی بے حد ضرورت ہے۔ اس بارے میں انصار و مہاجرین کا باہمی اشتراک بہت ہی قابل تحسین ہے۔ انصار نے اپنے کھیت اور باغ مہاجرین کے حوالے کر دیئے۔ اور مہاجرین نے اپنی محنت سے ان کو گل گلزار بنا دیا۔ رضی اللہ عنهم و رضواعنه
پھر انہیں حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث بتائی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے تو وہ خود حضرت رافع ؓ کے پاس گئے۔ (حضرت نافع کہتے ہیں کہ) میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ انھوں نے دریافت کیا تو حضرت رافع ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنے کھیت اس پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کناروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
پھر رافع بن خدیج ؓ کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ (یہ سن کر) ابن عمر ؓ رافع بن خدیج ؓ کے پاس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابن عمر ؓ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اس پر ابن عمر ؓ نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم ﷺ کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
قانون الگ ہے اور ایثار الگ۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ نے قانون نہیں بلکہ احسان اور ایثار کے طریقہ کو بتلایا ہے اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جواز اور عدم جواز کی صورت بیان فرما رہے ہیں۔ جس کا مقصد یہ کہ مدینہ میں جو یہ طریقہ رائج تھا کہ نہر کے قریب کی پیداوار زمین کا مالک لے لیتا اس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا مطلق بٹائی سے منع نہیں فرمایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے۔ آنحضرت ﷺ نے اس طرز عمل کی بڑے شاندار لفظوں میں رغبت دلائی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then he was told the narration of Rafi 'bin Khadij that the Prophet (ﷺ) had forbidden the renting of farms. Ibn 'Umar (RA) went to Rafi' and I accompanied him. He asked Rafi who replied that the Prophet (ﷺ) had forbidden the renting of farms. Ibn 'Umar (RA) said, "You know that we used to rent our farms in the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) for the yield of the banks of the water streams (rivers) and for certain amount of figs.