باب: نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: To share the yields and fruits)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2345.
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔
تشریح:
(1) حضرت رافع بن خدیج ؓ مطلق طور پر زمین بٹائی پر دینے سے منع کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر ؓ اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا تھا کیونکہ مخصوص رقبے کی پیداوار کے عوض زمین دی جاتی تھی، اس میں نقصان اور دھوکا تھا کیونکہ ادھر پیداوار ہوتی اور دوسری طرف آفت کا شکار ہو جاتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہوتا رہتا۔ کبھی تو زمین کا مالک پیداوار سے محروم رہتا۔ اور کبھی مزارع کو نقصان اٹھانا پڑتا، اس سے چوتھائی، تہائی یا نصف پیداوار کے عوض بٹائی پر دینے کی ممانعت نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کی وضاحت کے لیے حضرت سالم ؒ کی حدیث ذکر کی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پرہیزگار شخص تھے۔ ایک طویل مدت تک ان کا عمل جس بات پر رہا اس کے متعلق انہیں شبہ لاحق ہو گیا۔ آخرکار انہوں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات پر عمل کیا اور احتیاط کے خیال سے زمین کرائے پر دینا ترک کر دی۔ بہرحال قانون الگ ہے اور ایثار و ہمدردی کا پہلو الگ حیثیت رکھتا ہے۔ (3) حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات کو قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی بلکہ ان سے احسان اور ایثار کا پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرز عمل کی شاندار الفاظ سے حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2267
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2345
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2345
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2345
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کھیتی کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں باہمی اشتراک و امداد کی بے حد ضرورت ہے۔ اس بارے میں انصار و مہاجرین کا باہمی اشتراک بہت ہی قابل تحسین ہے۔ انصار نے اپنے کھیت اور باغ مہاجرین کے حوالے کر دیئے۔ اور مہاجرین نے اپنی محنت سے ان کو گل گلزار بنا دیا۔ رضی اللہ عنهم و رضواعنه
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت رافع بن خدیج ؓ مطلق طور پر زمین بٹائی پر دینے سے منع کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر ؓ اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا تھا کیونکہ مخصوص رقبے کی پیداوار کے عوض زمین دی جاتی تھی، اس میں نقصان اور دھوکا تھا کیونکہ ادھر پیداوار ہوتی اور دوسری طرف آفت کا شکار ہو جاتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہوتا رہتا۔ کبھی تو زمین کا مالک پیداوار سے محروم رہتا۔ اور کبھی مزارع کو نقصان اٹھانا پڑتا، اس سے چوتھائی، تہائی یا نصف پیداوار کے عوض بٹائی پر دینے کی ممانعت نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کی وضاحت کے لیے حضرت سالم ؒ کی حدیث ذکر کی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پرہیزگار شخص تھے۔ ایک طویل مدت تک ان کا عمل جس بات پر رہا اس کے متعلق انہیں شبہ لاحق ہو گیا۔ آخرکار انہوں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات پر عمل کیا اور احتیاط کے خیال سے زمین کرائے پر دینا ترک کر دی۔ بہرحال قانون الگ ہے اور ایثار و ہمدردی کا پہلو الگ حیثیت رکھتا ہے۔ (3) حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات کو قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی بلکہ ان سے احسان اور ایثار کا پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرز عمل کی شاندار الفاظ سے حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مجھے معلوم تھا کہ زمین کو بٹائی پر دیا جاتا تھا۔ پھر انہیں ڈر ہوا کہ ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سلسلے میں کوئی نئی ہدایت فرمائی ہو جس کا علم انہیں نہ ہوا ہو۔ چنانچہ انہوں نے (احتیاطاً) زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔
حدیث حاشیہ:
پیچھے تفصیل گزر چکا ہے کہ بیشتر مہاجرین انصار کی زمینوں پر بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ پس بٹائی پر دینا بلاشبہ جائز ہے یوں احتیاط کا معاملہ الگ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim (RA): Abdullah bin 'Umar said, "I knew that the land was rented for cultivation in the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) ." Later on Ibn 'Umar (RA) was afraid that the Prophet (ﷺ) had forbidden it, and he had no knowledge of it, so he gave up renting his land.