Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: To rent the land for gold and silver)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ اپنی خالی زمین کو ایک سال سے دوسرے سال تک کرایہ پر دو۔
2346.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ میرے دونوں چچا (ظہیر اور مہیر رضوان اللہ عنھم اجمعین) نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں زمین اس پیداوار کے عوض کا شت پر دیتے تھے جو کھالوں کے آس پاس اگتی یا اسی چیز کے عوض جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (راوی حدیث حضرت حنظلہ کہتے ہیں:)میں نے حضرت رافع ؓ سے دریافت کیا کہ درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟تو انھوں نے فرمایا: درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی قباحت نہیں (ایک اور راوی حدیث) حضرت لیث کہتے ہیں: جس بٹائی سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس میں حلال وحرام سمجھنے والے غوروفکر کریں تو اس میں دھوکے کی وجہ سے اسے جائز قرار نہ دیں۔
تشریح:
(1) بعض حضرات نے نقدی کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا بھی منع قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کی کچھ پیداوار یا دراہم کے عوض زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث:1384) لیکن امام ترمذی ؒ نے خود اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔ امام نسائی ؒ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے کہ اس روایت میں حضرت مجاہد کا سماع حضرت رافع ؓ سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒنے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:32/5) (2) ہمارے ہاں پٹے پر زمین لینے دینے کی مروجہ صورت جائز اور صحیح ہے۔ جس بٹائی کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں کسی خاص رقبے کی پیداوار کو مالک یا کاشتکار کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے یا متعین مقدار غلہ پر معاملہ طے ہوتا ہے۔ اس میں نقصان اور دھوکا دونوں خرابیاں ہیں۔ حضرت لیث نے بھی صراحت کی ہے کہ مزارعت کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں دھوکا وغیرہ ہو۔ یہ بات اگرچہ کسی نص سے ثابت نہیں لیکن اہل فہم اپنی فہم سے اس کی حرمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ بہرحال جمہور کے نزدیک کراء الارض کی نص اس بات پر محمول ہے کہ جس میں دھوکا اور جہالت ہو، مطلق طور پر مزارعت منع نہیں ہے اور نہ درہم و دینار، یعنی نقدی ہی کے عوض زمین لینا دینا ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ زمین تو تین آدمی ہی کاشت کر سکتے ہیں: ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو، دوسرا وہ جسے بطور عطیہ یا عاریتاً ملی ہو، تیسرا وہ جس نے سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر لی ہو۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3400) لیکن امام نسائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ مرفوع حدیث میں صرف محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت ہے، اس کے بعد والا مذکورہ کلام مدرج ہے اور انہوں نے اسے سعید بن مسیب کا کلام قرار دیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:3921) امام مالک نے بھی مؤطا میں اسے سعید بن مسیب کا کلام کہا ہے۔ (فتح الباري:33/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2268
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2346
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2346
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2346
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
امام ثوری رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں اس اثر کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:5/33،والسنن الکبریٰ للبیھقی:6/133) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو نقدی کے عوض ٹھیکے پر دیا جا سکتا ہے جس کی کم از کم مدت ایک سال ہو۔ اس میں اگرچہ مالک زمین کو سہولت ہے، تاہم اگر کسی آفت کی وجہ سے کاشتکار کو نقصان ہو تو مالک کو چاہیے کہ وہ اس کی تلافی کرے یا ٹھیکے کی مدت دو یا تین سال رکھی جائے تاکہ ایک سال کا نقصان دوسرے یا تیسرے سال پورا ہو سکے۔
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ اپنی خالی زمین کو ایک سال سے دوسرے سال تک کرایہ پر دو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ میرے دونوں چچا (ظہیر اور مہیر رضوان اللہ عنھم اجمعین) نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں زمین اس پیداوار کے عوض کا شت پر دیتے تھے جو کھالوں کے آس پاس اگتی یا اسی چیز کے عوض جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (راوی حدیث حضرت حنظلہ کہتے ہیں:)میں نے حضرت رافع ؓ سے دریافت کیا کہ درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا کیسا ہے؟تو انھوں نے فرمایا: درہم ودینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی قباحت نہیں (ایک اور راوی حدیث) حضرت لیث کہتے ہیں: جس بٹائی سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس میں حلال وحرام سمجھنے والے غوروفکر کریں تو اس میں دھوکے کی وجہ سے اسے جائز قرار نہ دیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات نے نقدی کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا بھی منع قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کی کچھ پیداوار یا دراہم کے عوض زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث:1384) لیکن امام ترمذی ؒ نے خود اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔ امام نسائی ؒ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے کہ اس روایت میں حضرت مجاہد کا سماع حضرت رافع ؓ سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒنے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:32/5) (2) ہمارے ہاں پٹے پر زمین لینے دینے کی مروجہ صورت جائز اور صحیح ہے۔ جس بٹائی کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں کسی خاص رقبے کی پیداوار کو مالک یا کاشتکار کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے یا متعین مقدار غلہ پر معاملہ طے ہوتا ہے۔ اس میں نقصان اور دھوکا دونوں خرابیاں ہیں۔ حضرت لیث نے بھی صراحت کی ہے کہ مزارعت کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں دھوکا وغیرہ ہو۔ یہ بات اگرچہ کسی نص سے ثابت نہیں لیکن اہل فہم اپنی فہم سے اس کی حرمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ بہرحال جمہور کے نزدیک کراء الارض کی نص اس بات پر محمول ہے کہ جس میں دھوکا اور جہالت ہو، مطلق طور پر مزارعت منع نہیں ہے اور نہ درہم و دینار، یعنی نقدی ہی کے عوض زمین لینا دینا ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ زمین تو تین آدمی ہی کاشت کر سکتے ہیں: ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو، دوسرا وہ جسے بطور عطیہ یا عاریتاً ملی ہو، تیسرا وہ جس نے سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر لی ہو۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3400) لیکن امام نسائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ مرفوع حدیث میں صرف محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت ہے، اس کے بعد والا مذکورہ کلام مدرج ہے اور انہوں نے اسے سعید بن مسیب کا کلام قرار دیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:3921) امام مالک نے بھی مؤطا میں اسے سعید بن مسیب کا کلام کہا ہے۔ (فتح الباري:33/5)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: بہتر کام جو تم کرنا چاہو یہ ہے کہ خالی زمین ایک سال تک کے لیے ٹھیکے پر دے دو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر ؓ) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فر دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج ؓ سے پوچھا، اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرمایا تھا، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیوں کہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ جس مزارعت میں دھوکہ نہ ہو مثلاً روپیہ وغیرہ کے بدل ہو یا پیداوار کے نصف یا ربع پر ہو تو وہ جائز ہے۔ منع وہی مزارعت ہے جس میں دھوکہ ہو مثلاً کسی خاص مقام کی پیداوار پر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hanzla bin Qais (RA): Rafi bin Khadij said, "My two uncles told me that they (i.e. the companions of the Prophet) used to rent the land in the life-time of the Prophet (ﷺ) for the yield on the banks of water streams (rivers) or for a portion of the yield stipulated by the owner of the land. The Prophet (ﷺ) forbade it." I said to Rafi, "What about renting the land for Dinars and Dirhams?" He replied, "There is no harm in renting for Dinars-Dirhams. Al-Laith said, "If those who have discernment for distinguishing what is legal from what is illegal looked into what has been forbidden concerning this matter they would not permit it, for it is surrounded with dangers."