باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The sin of him who witholds water from travellers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2358.
ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔
تشریح:
(1) حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کا ذکر ہے کیونکہ اس وقت عموماً لوگ تجارت میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، بصورت دیگر یہ حکم عام ہے۔ ہر وقت جھوٹی قسم اٹھانے پر مذکورہ وعید ہے۔ (2) فالتو پانی سے پیاسے مسافروں کو محروم کرنے والا انسانیت کا دشمن اور اخلاق کا باغی ہے۔ ایسے انسان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی جان خطرے میں ہے، اسے پانی پلانا چاہیے نہ کہ اسے محروم کر کے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا جائے کیونکہ چلتے راستہ میں کسی اور ذریعے سے پانی ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس بقدر ضرورت پانی ہے تو وہ مسافر کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2278
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2358
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2358
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2358
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یعنی جو پانی اس کی ضرورت سے زیادہ ہو جیسے حدیث میں اس کی تصریح ہے اور ضرورت کے موافق جو پانی ہو اس کا مالک زیادہ حق دار ہے بہ نسبت مسافر کے۔
ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کا ذکر ہے کیونکہ اس وقت عموماً لوگ تجارت میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، بصورت دیگر یہ حکم عام ہے۔ ہر وقت جھوٹی قسم اٹھانے پر مذکورہ وعید ہے۔ (2) فالتو پانی سے پیاسے مسافروں کو محروم کرنے والا انسانیت کا دشمن اور اخلاق کا باغی ہے۔ ایسے انسان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی جان خطرے میں ہے، اسے پانی پلانا چاہیے نہ کہ اسے محروم کر کے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا جائے کیونکہ چلتے راستہ میں کسی اور ذریعے سے پانی ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس بقدر ضرورت پانی ہے تو وہ مسافر کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا۔ دوسرا وہ شخص جو کسی حاکم سے بیعت صرف دنیا کے لیے کرے کہ اگر وہ حاکم اسے کچھ دے تو وہ راضی رہے ورنہ خفا ہو جائے۔ تیسرے وہ شخص جو اپنا (بیچنے کا) سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، مجھے اس سامان کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، اس پر ایک شخص نے اسے سچ سمجھا (اور اس کی بتائی ہوئی قیمت پر اس سامان کو خرید لیا) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ”جو لوگ اللہ کو درمیان میں دے کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر دنیا کا تھوڑا سا مال مول لیتے ہیں۔“ آخر تک۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں جن تین ملعون آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اول فالتو پانے سے روکنے والا، خاص طور پر پیاسے مسافر کو محروم رکھنے والا۔ وہ انسانیت کا مجرم ہے، اخلاق کا باغی ہے، ہمدردی کا دشمن ہے، اس کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہئے۔ اس کی جان خطرے میں ہے۔ اس کی بقا کے لیے اسے پانی پلانی چاہئے نہ کہ اسے پیاسا لوٹا دیا جائے۔ دوسرا وہ انسان جو اسلامی تنظیم میں محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے گھس بیٹھا ہے اور وہ خلاف مفاد ذرا سی بات بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ بدترین انسان ہے جو ملی اتحاد کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے غدار کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس زمانہ میں اسلامی مدارس و دیگر تنظیموں میں بکثرت ایسے ہی لوگ برسراقتدار ہیں۔ جو محض ذاتی مفاد کے لیے ان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اگر کسی وقت ان کے وقار پر ذرا بھی چوٹ پڑی تو وہ اسی مدرسہ کے، اسی تنظیم کے انتہائی دشمن بن کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ حدیث میں حاکم اسلام سے بیعت کرنے کا ذکر ہے مگر ہر اسلامی تنظیم کو اسی پر سمجھا جاسکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں کتنے ہی ایسے غدار ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی نقصان کا خیال کرکے اسلامی حکومت کو سازشوں کی آماجگاہ بنا کر آخر میں اس کی تہہ و بالا کر ا دیا۔ تیسرا وہ تاجر ہے جو مال نکالنے کے لیے جھوٹ فریب کا ہر ہتھیار استعمال کرتا ہے، اور جھوٹ بول بول کر خوب بڑھا چڑھا کر اپنا مال نکالتا ہے۔ الغرض بغور یکھا جاے تو یہ تینوں مجرم اتنہائی مذمت کے قابل ہیں اور حدیث ہذا میں جو کچھ ان کے متعلق بتلایا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر بالکل صدق اور صواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "There are three persons whom Allah will not look at on the Day of Resurrection, nor will he purify them and theirs shall be a severe punishment. They are: 1. A man possessed superfluous water, on a way and he withheld it from travelers. 2. A man who gave a pledge of allegiance to a ruler and he gave it only for worldly benefits. If the ruler gives him something he gets satisfied, and if the ruler withholds something from him, he gets dissatisfied. 3. And man displayed his goods for sale after the 'Asr prayer and he said, 'By Allah, except Whom None has the right to be worshipped, I have been given so much for my goods,' and somebody believes him (and buys them)." The Prophet (ﷺ) then recited: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths." (3.77)