باب: جس کا کھیت بلندی پر ہو پہلے وہ اپنے کھیتوں کو پانی پلائے
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: The land near the source of water to be irrigated first)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2361.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا انصار کے ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیاتو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا: ’’اے زبیر! تم اپنا کھیت سیراب کرنے کے بعد پانی چھوڑ دیا کرو۔‘‘ اس پر انصاری نے کہا: آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے زبیر!تم اپنے کھیت کو سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی منڈیر تک پہنچ جائے، اتنی دیر تک پانی روکے رکھو۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے گمان کے مطابق یہ آیت اس معاملے کے متعلق نازل ہوئی ہے: ’’نہیں نہیں، مجھے تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اسے وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ا پنے اختلافات میں تجھے حکم نہ تسلیم کرلیں۔‘‘
تشریح:
(1) زمیندار لوگ جانتے ہیں کہ باغ کے لیے اتنا پانی کھڑا کیا جاتا ہے کہ درختوں کی جڑوں تک پانی جذب ہو کر پہنچ جائے۔ ظاہر ہے کہ اتنا پانی کھڑا کرنے کے لیے اسے کچھ دیر روکنا پڑے گا۔ پانی سے اپنے باغ کو سیراب کرنا اور برساتی نالے کا پانی روک لینا پہلے اس کا حق ہے جس کا باغ یا کھیت بالائی علاقے میں ہو۔ (2) بڑے بڑے دریاؤں کے پانی میں کسی کو مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ ان میں ہر ایک کو حق ہے جب چاہے، جتنا چاہے، جیسے چاہے اس سے پانی لے سکتا ہے۔ یہ حکم برساتی نالوں اور وادیوں سے بہنے والے پانی کے متعلق ہے کہ اوپر والے پانی استعمال کر کے نیچے والوں کے لیے چھوڑ دیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2280
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2361
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2361
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2361
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جو نہر یا نالہ کسی کی ملک نہ ہو اس سے پانی لینے میں پہلے بلند کھیت والے کا حق ہے وہ اتنا پانی اپنے کھیت میں دے سکتا ہے کہ اب زمین پانی نہ پئے۔ اور کھیت کی منڈیروں تک پانی چڑھ آئے، پھر نشیبی کھیت والے کی طرف پانی کو چھوڑدے۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا انصار کے ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیاتو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا: ’’اے زبیر! تم اپنا کھیت سیراب کرنے کے بعد پانی چھوڑ دیا کرو۔‘‘ اس پر انصاری نے کہا: آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے زبیر!تم اپنے کھیت کو سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی منڈیر تک پہنچ جائے، اتنی دیر تک پانی روکے رکھو۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے گمان کے مطابق یہ آیت اس معاملے کے متعلق نازل ہوئی ہے: ’’نہیں نہیں، مجھے تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اسے وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ا پنے اختلافات میں تجھے حکم نہ تسلیم کرلیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) زمیندار لوگ جانتے ہیں کہ باغ کے لیے اتنا پانی کھڑا کیا جاتا ہے کہ درختوں کی جڑوں تک پانی جذب ہو کر پہنچ جائے۔ ظاہر ہے کہ اتنا پانی کھڑا کرنے کے لیے اسے کچھ دیر روکنا پڑے گا۔ پانی سے اپنے باغ کو سیراب کرنا اور برساتی نالے کا پانی روک لینا پہلے اس کا حق ہے جس کا باغ یا کھیت بالائی علاقے میں ہو۔ (2) بڑے بڑے دریاؤں کے پانی میں کسی کو مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ ان میں ہر ایک کو حق ہے جب چاہے، جتنا چاہے، جیسے چاہے اس سے پانی لے سکتا ہے۔ یہ حکم برساتی نالوں اور وادیوں سے بہنے والے پانی کے متعلق ہے کہ اوپر والے پانی استعمال کر کے نیچے والوں کے لیے چھوڑ دیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، کہ زبیر ؓ سے ایک انصاری ؓ کا جھگڑا ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زبیر ! پہلے تم (اپنا باغ) سیراب کر لو، پھر پانی آگے کے لیے چھوڑ دینا، اس پر انصاری ؓ نے کہا کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں ! یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، زبیر ! اپنا باغ اتنا سیراب کرلو کہ پانی اس کی منڈیروں تک پہنچ جائے اتنے روک رکھو، زبیر ؓ نے کہا کہ میرا گمان ہے کہ یہ آیت ”ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک آپ کو اپنے تمام اختلافات میں حکم نہ تسلیم کرلیں۔“ اسی باب میں نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ فیصلہ نبوی کے سامنے بلاچوں و چرا سر تسلیم خم کر دینا ہی ایمان کی دلیل ہے اگر اس بارے میں ذرہ برابر بھی دل میں تنگی محسوس کی تو پھر ایمان کا خدا ہی حافظ ہے۔ ان مقلدین جامدین کو سوچنا چاہئے جو صحیح حدیث کے مقابلہ پر محض اپنے مسلکی تعصب کی بنا پر خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور فیصلہ نبوی کو رد کردیتے ہیں، حوض کوثر پر آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ لوگ کیا منہ لے کر جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa (RA): When a man from the Ansar quarrelled with AzZubair, the Prophet (ﷺ) said, "O Zubair! Irrigate (your land) first and then let the water flow (to the land of the others)." "On that the Ansari said, (to the Prophet), "It is because he is your aunt's son." On that the Prophet (ﷺ) said, "O Zubair! Irrigate till the water reaches the walls between the pits around the trees and then stop (i.e. let the water go to the other's land)." I think the following verse was revealed concerning this event: "But no, by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)