باب : اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کوئی اور چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتا
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: Hima (private pasture))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2370.
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چراگاہ کو اللہ اور اس کا رسول محفوظ کرسکتا ہے۔‘‘ امام زہری ؒ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نقیع کو محفوظ کیا، نیز حضرت عمر ؓ نے مقام شرف اور ربذہ کو سرکاری چراگاہ قرار دیا۔
تشریح:
(1) "حِمٰی" سے مراد وہ محفوظ علاقہ ہے جو حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ وہاں حکومت کو ملنے والے صدقے کے جانور وغیرہ چرتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس علاقے میں گھاس ہوتی یا وادی کا نشیب ہوتا وہاں بڑے سردار یہ اعلان کر دیتے کہ جہاں تک ہمارے کتوں کے بھونکنے کی آواز جاتی ہے وہ ہمارا ممنوعہ علاقہ ہے۔ وہاں کسی دوسرے شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ حکومت کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی فالتو پڑی زمین کو چراگاہ نہیں بنا سکتا۔ ہاں اپنی مملوکہ زمین میں اگر کوئی چراگاہ بنانا چاہتا ہو تو اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ (2) وادیوں، پہاڑوں اور فالتو زمین سے اگرچہ مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ ان کے مالک نہیں بن سکتے، یہ حق صرف حکومت کو ہے کہ وہ کسی فالتو زمین کو چراگاہ قرار دے۔ ایسی چراگاہ میں جہاد کے گھوڑے، اونٹ اور زکاۃ کے جانور وغیرہ چرائے جا سکتے ہیں۔ بہرحال جنگلات، پہاڑوں کی چوٹیاں، گھاٹیاں اور برساتی ندی نالوں کے اردگرد چراگاہیں حکومت وقت کی ملکیت ہوتی ہیں کسی دوسرے کو وہاں قبضہ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسے مقامات رفاہی منصوبوں اور قومی آبادکاری کے لیے ہوتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2289
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2370
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2370
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2370
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت صعب بن جثامہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چراگاہ کو اللہ اور اس کا رسول محفوظ کرسکتا ہے۔‘‘ امام زہری ؒ نے کہا: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نقیع کو محفوظ کیا، نیز حضرت عمر ؓ نے مقام شرف اور ربذہ کو سرکاری چراگاہ قرار دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) "حِمٰی" سے مراد وہ محفوظ علاقہ ہے جو حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ وہاں حکومت کو ملنے والے صدقے کے جانور وغیرہ چرتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس علاقے میں گھاس ہوتی یا وادی کا نشیب ہوتا وہاں بڑے سردار یہ اعلان کر دیتے کہ جہاں تک ہمارے کتوں کے بھونکنے کی آواز جاتی ہے وہ ہمارا ممنوعہ علاقہ ہے۔ وہاں کسی دوسرے شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ حکومت کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی فالتو پڑی زمین کو چراگاہ نہیں بنا سکتا۔ ہاں اپنی مملوکہ زمین میں اگر کوئی چراگاہ بنانا چاہتا ہو تو اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ (2) وادیوں، پہاڑوں اور فالتو زمین سے اگرچہ مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ ان کے مالک نہیں بن سکتے، یہ حق صرف حکومت کو ہے کہ وہ کسی فالتو زمین کو چراگاہ قرار دے۔ ایسی چراگاہ میں جہاد کے گھوڑے، اونٹ اور زکاۃ کے جانور وغیرہ چرائے جا سکتے ہیں۔ بہرحال جنگلات، پہاڑوں کی چوٹیاں، گھاٹیاں اور برساتی ندی نالوں کے اردگرد چراگاہیں حکومت وقت کی ملکیت ہوتی ہیں کسی دوسرے کو وہاں قبضہ کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسے مقامات رفاہی منصوبوں اور قومی آبادکاری کے لیے ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید اللہ بن عتبہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ صعب بن جثامہ لیثی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، چراگاہ اللہ اور اس کا رسول ہی محفوظ کرسکتا ہے۔ (ابن شہاب نے) بیان کیا کہ ہم تک یہ بھی پہنچا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نقیع میں چراگاہ بنوائی تھی اور حضرت عمر ؓ نے سرف اور ربذہ کو چراگاہ بنایا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جنگل میں چراگاہ روکنا، گھاس اور شکار بند کرنا یہ کسی کو نہیں پہنچتا، سوائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے۔ امام اور خلیفہ بھی رسول کا قائم مقام ہے۔ اس کے سوا اور لوگوں کو چراگاہ روکنا اور محفوظ کرنا درست نہیں۔ شافعیہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ نقیع ایک مقام ہے مدینہ سے بیس میل پر، اور سرف اور ربذہ بھی مقاموں کے نام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Sab bin Jaththama (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, No Hima except for Allah and His Apostle. We have been told that Allah's Apostle (ﷺ) made a place called An-Naqi' as Hima, and 'Umar made Ash-Sharaf and Ar-Rabadha Hima (for grazing the animals of Zakat).