کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
(
باب : قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Loans, Payment of Loans, Freezing of Property, Bankruptcy
(Chapter: The funeral Salat (prayer) for a dead person in debt)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2398.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی مال چھوڑاتو وہ اس کے ورثاء کا حق ہے اور جس نے کوئی بوجھ (اہل وعیال یا قرض) چھوڑا تو وہ ہمارے ذمے ہے۔‘‘
تشریح:
(1) بظاہر اس عنوان کا مقام کتاب الجنائز ہے، پھر اس حدیث میں نماز جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؟ دراصل امام بخاری ؒ نے آغاز کار کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ابتدائے اسلام میں اگر کوئی مر جاتا اور اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑ جاتا تو آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔ بعد میں جب فتوحات کا زمانہ آیا تو آپ نے میت کا قرض بیت المال کے ذمے کر دیا۔ (2) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے پاس قرض کی ادائیگی کا سامان نہیں ہے تو اس کا قرض بیت المال کی طرف سے ادا کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ لوگ قرض لے کر فضول خرچیاں کریں اور اس امید پر اسراف کریں کہ بیت المال کی طرف سے ادا کر دیا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر کڑی نظر رکھے تاکہ لوگ اس سہولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2316
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2398
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2398
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2398
تمہید کتاب
امام بخاری رحمہ اللہ کی عام عادت ہے کہ ایک عنوان کے تحت کئی احادیث ذکر کرتے ہیں، لیکن چند عناوین کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے جب انہیں ان کے مطابق احادیث کم ملی ہوں۔ اس مقام پر انہوں نے چار چیزوں کو ایک عنوان میں جمع کر دیا ہے: (1) استقراض: قرض لینا۔ (2) أداء الديون: قرض ادا کرنا۔ (3) حجر: حاکم وقت کسی شخص کو اپنے مال میں تصرف سے وقتی طور پر روک دے۔ (4) تفليس: حاکم وقت کسی کو مفلس قرار دے کر اسے بقایا املاک میں تصرف سے منع کر دے تاکہ جو کچھ موجود ہے وہ قرض خواہوں کو دے کر ان کے معاملات کو ختم کیا جائے۔اسلام زندگی میں اعتدال پیدا کرنے اور معیشت میں میانہ روی اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس اعتدال اور میانہ روی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کبھی قرض لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ ایسا کرنے سے پریشانی لاحق ہوتی ہے اور پھر دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے حالات میں دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے ضرورت مند کے ساتھ تعاون کریں اور اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنی ضروریات کو نظر انداز کر کے اپنے بھائی کی پیش آمدہ ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) "وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ خود فاقے سے ہوں۔" (الحشر9:59) اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔" (مسند احمد:4/104)ایک دوسری حدیث میں ہے: "اللہ تعالیٰ آدمی کی اس وقت تک مدد کرتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔" (مسند احمد:2/274) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرض لینے کو ناپسند فرمایا ہے کیونکہ اس سے انسان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ نماز میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے: "اے اللہ! میں گناہ سے اور قرض لینے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔" کسی نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے آپ اکثر قرض سے پناہ مانگتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "آدمی جب مقروض ہو جاتا ہے تو بات بات پر جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔" (مسند احمد:6/88) ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب انسان کا دل مطمئن ہو تو خواہ مخواہ اسے خوفزدہ اور پریشان نہیں کرنا چاہیے۔" لوگوں نے پوچھا: اسے پریشان کرنے والی کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: "قرض، یعنی قرض لینے کے بعد انسان خواہ مخواہ پریشان اور پراگندہ حال رہتا ہے۔" (مسند احمد:4/146)ان ہدایات کے پیش نظر ایک مسلمان کو شدید ضرورت کے بغیر قرض نہیں لینا چاہیے اور جب لے تو نیت صاف کر لے اور اسے جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر نیت صاف ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے پتہ چلتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس شخص نے لوگوں کا مال بطور قرض لیا اور اسے ادا کرنے کا ارادہ بھی کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کا قرض ادا کر دے گا، یعنی اسے توفیق دے دے گا۔" (مسند احمد:2/361)سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مقروض شخص کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل رہتی ہے حتی کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے بشرطیکہ وہ قرض اس کام کے لیے نہ ہو جو اللہ کو ناپسند ہو۔" سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اپنے خزانچی سے کہتے: جا کر میرے لیے قرض لے آؤ کیونکہ جب سے میں نے رسول اللہ سے یہ سن لیا ہے اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ کی معیت کے بغیر رات گزارنا ناپسند کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ،الصدقات،حدیث:2409)حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بھی قرض لیا، انہیں کہا گیا: آپ قرض لے رہی ہیں جبکہ آپ اسے ادا نہیں کر سکتیں؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جو شخص قرض لیتا ہے اور اللہ تو خوب جانتا ہے کہ یہ ادا کرنا چاہتا ہے، ایسے انسان کے لیے اللہ تعالیٰ (دنیا ہی میں) ادا کرنے کا کوئی راستہ نکال دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/332)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قرض لیا کرتی تھیں۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: میں اس مدد کو حاصل کرنا چاہتی ہوں جس کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: "جس انسان نے ادائیگی کی نیت سے قرض لیا اسے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔" (مسند احمد:6/99)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص قرض لیتا ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے فکر مند رہتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔" (مسند احمد:6/255)ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض انسان کی اگر نیت صاف ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قرض واپس کرنے کی توفیق ضرور دے گا بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی مدد اور رحمت رہتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوشش کے باوجود اپنا قرض ادا نہیں کر سکا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنے رحم و کرم والا معاملہ فرمائے گا اور اسے لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار نہیں کرے گا۔ مقروض کو چاہیے کہ وہ قرض سے پناہ طلب کرتا رہے اور اس کی ادائیگی کے لیے بکثرت دعائیں کرتا رہے۔ امید ہے کہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ ضرور اس کا بوجھ ہلکا کر دے گا۔ ایک صحابی قرض کی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے، انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھنے کی تلقین کی اور فرمایا: "اگر تیرا قرض ایک بڑے پہاڑ جتنا بھی ہو تو وہ بھی ادا ہو جائے گا۔" (دعا یہ ہے: ) (اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، و أغنني بفضلك عمن سواك) "اے اللہ! تو میرے لیے رزق حرام کے بجائے رزق حلال کو کافی بنا دے اور اپنی رحمت کے علاوہ مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دے۔" (مسند احمد:1/153،وجامع الترمذی،الدعوات،حدیث:3563)اس کے علاوہ وہ انسان اپنی زبان میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کر سکتا ہے۔ دعا کی کوئی تعداد مقرر نہیں اور نہ یہ کسی خاص وقت کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ مقروض آدمی کو چاہیے کہ اسے جب بھی فرصت ملے بکثرت دعائیں کرتا رہے، خاص طور پر شب خیزی کے وقت نہایت عجز و انکسار سے دعا کرنے کی کوشش کرے۔قرض دار کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب اس کے مالی حالات کو اچھا کر دے اور اسے قرض کی ادائیگی کے متعلق وسائل مہیا ہو جائیں تو حسب وعدہ اس معاملے کو انتہائی خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل تک پہنچائے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادھار پر ایک اونٹ دیا، جب میں نے اس کی قیمت کا تقاضا کیا تو آپ نے بڑے اچھے انداز سے اسے ادا فرمایا۔ (مسند احمد:4/127)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی ہدایت فرمائی ہے: "لوگوں میں بہتر وہی انسان ہے جو قرض کی رقم خوش اسلوبی سے ادا کرے۔" (مسند احمد:2/377)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے جو فراخ دلی سے تقاضا کرتا ہے اور خوش دلی سے اپنا قرض ادا کرتا ہے۔(مسند احمد:2/210)مقروض کو چاہیے کہ قرض کی ادائیگی کے وقت قرض خواہ کا شکریہ ادا کرے اور اس کے مال و اولاد میں برکت کی دعا بھی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر ایک آدمی سے کچھ قرض لیا، ادائیگی کے وقت اس کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی: (بارك الله لك في اهلك و مالك) "اللہ تعالیٰ تیرے مال و اولاد میں برکت فرمائے۔" نیز آپ نے فرمایا: "قرض کا حق یہ ہے کہ اسے بروقت شکریے کے ساتھ ادا کر دیا جائے۔" (مسند احمد:4/36)ادائیگی کے وقت اگر کسی قسم کی سابقہ شرط کے بغیر اصل رقم کے علاوہ کچھ اضافی رقم دے دی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرا کچھ قرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے تھا، آپ نے وہ بھی ادا کیا اور مجھے کچھ مزید رقم بھی دی۔" (مسند احمد:3/302)مقروض کو چاہیے کہ جان بوجھ کر ٹال مٹول سے کام نہ لے کیونکہ شریعت نے گنجائش کے باوجود دیر کرنے کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔ فرمان نبوی ہے: "صاحب حیثیت مقروض کا جان بوجھ کر ٹال مٹول کرنا صریح ظلم ہے۔" (مسند احمد:2/71) ایسے حالات میں قرض خواہ اس کی بے عزتی کرے یا اسے قید کرا دے تو شریعت نے اسے یہ حق دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "ادائیگی پر قدرت رکھتے ہوئے مقروض کا ٹال مٹول کرنا اس کی بے عزتی اور اسے قید کر دینے کو حلال کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:4/222)ایسے حالات میں اگر موت آ گئی تو اللہ کے حضور مزید سنگینی اور تنگی کا اندیشہ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کی جان قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اسے ادا کر دیا جائے۔" (مسند احمد:2/508)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز فجر کے بعد فرمایا: "فلاں قبیلے کا کوئی شخص ادھر موجود ہے؟" لوگوں نے کہا: ہاں، موجود ہے۔ آپ نے فرمایا: "تمہارے ساتھی کو اس کے ذمے قرض کی بنا پر جنت کے دروازے پر روک لیا گیا ہے (لہذا اس کی ادائیگی کا بندوبست کرو)۔" (مسند احمد:5/11)ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: "تجھے جنت ملے گی۔" جب وہ یہ بات سن کر چلا گیا تو آپ نے اسے دوبارہ بلا کر فرمایا: "جبرئیل علیہ السلام نے ابھی ابھی میرے کان میں کہا ہے کہ ایسے حالات میں قرض معاف نہیں ہو گا۔" (مسند احمد:4/139)شریعتِ اسلامیہ نے مقروض انسان کا ہاتھ بٹانے والے کو بہت خیروبرکت سے نوازا ہے بشرطیکہ وہ اس سلسلے میں شرعی آداب کو ملحوظ رکھے۔ اسے چاہیے کہ وہ فراخ دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کرے۔ اپنی دی ہوئی رقم کے عوض کسی قسم کا مفاد نہ لے اور نہ اس پر کسی وقت بیگار کا بوجھ ہی ڈالے، نہ اس پر احسان جتلا کر اسے تکلیف ہی پہنچائے بلکہ اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے مزید مہلت دے یا اسے بالکل معاف کر دے۔ قرآن مجید میں اپنے قرض کو مقروض پر صدقہ کر دینے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں اس کے مندرجہ ذیل فضائل بیان ہوئے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرض، نصف صدقے کے قائم مقام ہے۔" (مسند احمد:1/412) اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی رقم قرض دی ہے، قرض دینے والے کو اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے نصف رقم اس مقروض پر صدقہ کر دی ہے۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا: "جو انسان کسی تنگ دست مقروض کو مہلت دے دیتا ہے اسے ہر روز اتنی ہی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے (جتنی اس نے قرض دی ہے)۔" پھر آپ نے فرمایا: "جو کسی مفلوک الحال کو اس کے حالات درست ہونے تک مہلت دیتا ہے اسے ہر روز قرض سے دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔" اس پر میں نے سوال کیا کہ آپ نے اس قدر ثواب کی کمی بیشی کیونکر بیان فرمائی ہے؟ پھر آپ نے وضاحت کی کہ ادائیگی کے وعدے تک تو قرض کی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اگر وعدے کے بعد مہلت دیتا ہے تو جتنے دن وعدے کے بعد آئیں گے، ان کے عوض ہر روز قرض سے دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔ (مسند احمد:5/360)گویا قرض کی نوعیت کے پیش نظر ثواب میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو شخص اپنے مقروض کو کشادگی تک مہلت دیتا ہے یا اسے معاف کر دیتا ہے وہ قیامت کے دن عرش کے سائے تلے ہو گا۔" (مسند احمد:5/300)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا ان الفاظ میں کی ہے: "اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم و کرم کرے جو خریدوفروخت اور قرض کا تقاضا کرنے میں نرمی اور فیاضی کا مظاہرہ کرتا ہے۔" (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2076)پیش کردہ ان احادیث کی روشنی میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کن حالات میں قرض لینا جائز ہے اور قرض لینے کے بعد اسے کیا کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں جو قومی خزانے سے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کر کے بڑے بڑے قرضے لینے کا رجحان پایا جاتا ہے پھر اسے مختلف حیلوں، بہانوں کے ذریعے سے معاف کرا لیا جاتا ہے، ان حضرات کا اخروی مستقبل انتہائی مخدوش ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ پھر قرض دینے والے حضرات بھی اس کے عوض جو فوائد و ثمرات حاصل کرتے ہیں وہ یقینا سود ہی کے دائرے میں آتے ہیں۔ دین اسلام نے سود لینے دینے کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنا قرار دیا ہے اور حدیث کے مطابق سود کی کئی ایک شاخیں ہیں، سب سے ہلکا جرم گویا اپنی حقیقی ماں سے زنا کرنا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:8/74،73،حدیث:7147) اللہ تعالیٰ ہمیں ان ہدایات پر عمل کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے، نیز قیامت کے دن ہمیں ہر قسم کی ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمینامام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں حجر کو بھی بیان کیا ہے۔ کسی شخص کو عارضی طور پر اس کی ملکیت میں تصرف کرنے سے روک دینا حجر کہلاتا ہے۔ حجر کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ جس شخص پر تصرف کی پابندی لگائی جا رہی ہے، یہ پابندی اس کے مفاد اور اس کی خیرخواہی میں ہو جیسا کہ بے وقوف یا فضول خرچ انسان پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ دوسروں کی حق تلفی سے بچانے کے لیے پابندی لگائی جائے جیسا کہ کسی مقروض انسان پر قرض خواہوں کی وجہ سے پابندی لگائی جاتی ہے۔ عام طور پر اس حجر کے تین اسباب ہوتے ہیں: ایک یہ کہ کسی میں تصرف کی صلاحیت ہی نہ ہو، دوسرا یہ کہ صلاحیت تو ہو مگر اس کا استعمال غلط ہو رہا ہو، تیسرا یہ کہ اس کے مال میں تصرف سے دوسرے لوگوں کا نقصان ہو رہا ہو۔ اس کے علاوہ حجر کی مزید صورتیں حسب ذیل ہیں:٭ ایک معلم صحیح تعلیم دینے کے بجائے بچوں کو غلط تعلیم دیتا ہے۔ ٭ کوئی شخص لوگوں کے اخلاق سدھارنے کے بجائے بگاڑتا ہے۔ ٭ کوئی ادارہ گندی اور فحش کتابیں شائع کرتا ہے۔ ٭ کوئی مفتی غلط فتوے دیتا اور لوگوں کا دین خراب کرتا ہے۔ ٭ کوئی جاہل حکیم اپنا مطب کھول کر لوگوں کی صحت برباد کرتا ہے۔ ٭ کوئی پیشہ ور لوگوں سے دھوکا اور فراڈ کرتا ہے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں پر پابندی عائد کرے۔ عوام، حکومت تک اپنی شکایات پہنچا سکتے ہیں مگر انہیں چاہیے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے بدامنی اور بے چینی پھیلے۔ بہرحال یہ بھی حجر کی اقسام ہیں۔ حکومت کو ایسے لوگوں کا ضرور نوٹس لینا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں پچیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن پر بیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ، چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں:٭ ادھار پر اشیاء خریدنا۔ ٭ جو شخص مال ادا کرنے یا ہضم کرنے کی نیت سے قرض لے۔ ٭ قرضوں کی ادائیگی کیسے ہو؟ ٭ نرمی سے قرض لینے کا تقاضا کرنا۔ ٭ اچھی طرح سے قرض ادا کرنا۔ ٭ قرض سے پناہ طلب کرنا۔٭ مقروض کا جنازہ نہ پڑھنا۔ ٭ مقروض کا بلاوجہ ادائیگی سے ٹال مٹول کرنا۔ ٭ دیوالیہ یا محتاج کا اثاثہ فروخت کر کے قرض خواہوں میں تقسیم کرنا۔ ٭ قرض میں کمی کے لیے سفارش کرنا۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے قرض کے متعلق بے شمار احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں وہ بھی قابل مطالعہ ہیں۔ ہماری گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی مال چھوڑاتو وہ اس کے ورثاء کا حق ہے اور جس نے کوئی بوجھ (اہل وعیال یا قرض) چھوڑا تو وہ ہمارے ذمے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بظاہر اس عنوان کا مقام کتاب الجنائز ہے، پھر اس حدیث میں نماز جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؟ دراصل امام بخاری ؒ نے آغاز کار کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ابتدائے اسلام میں اگر کوئی مر جاتا اور اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑ جاتا تو آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔ بعد میں جب فتوحات کا زمانہ آیا تو آپ نے میت کا قرض بیت المال کے ذمے کر دیا۔ (2) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے پاس قرض کی ادائیگی کا سامان نہیں ہے تو اس کا قرض بیت المال کی طرف سے ادا کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ لوگ قرض لے کر فضول خرچیاں کریں اور اس امید پر اسراف کریں کہ بیت المال کی طرف سے ادا کر دیا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر کڑی نظر رکھے تاکہ لوگ اس سہولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص (اپنے انتقال کے وقت) مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If someone leaves some property, it will be for the inheritors, and if he leaves some weak offspring, it will be for us to support them."