باب: جب نمازی کی پشت پر (اچانک) کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: If a dead body or a polluted thing is put on the back of a person offering Salat (prayer), his Salat will not be annulled (rejected by Allah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓجب نماز پڑھتے وقت کپڑے میں خون لگا ہوا دیکھتے تو اس کو اتار ڈالتے اور نماز پڑھتے اور نماز پڑھتے رہتے، ابن مسیب اور شعبی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے کپڑے پر نجاست یا جنابت لگی ہو، یا ( بھول کر ) قبلے کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھی ہو یا تیمم کر کے نماز پڑھی ہو، پھر نماز ہی کے وقت میں پانی مل گیا ہو تو ( اب ) نماز نہ دہرائے۔ان آثار کو عبدالرزاق اور سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے صحیح اسانید سے روایت کیا ہے۔
240.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے: تم میں سے کون جاتا ہے کہ فلاں قبیلے کی اونٹنی کی بچہ دانی لے آئے، جسے وہ سجدے کی حالت میں محمد (ﷺ) کی پشت پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر دیکھتا رہا۔ جب نبی ﷺ سجدے میں گئے تو اس نے اسے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر رکھ دیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ تو رہا تھا لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش کہ مجھے تحفظ حاصل ہوتا، پھر وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ سجدے ہی میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھایا تا آنکہ حضرت فاطمہ ؓا آئیں اور آپ کی پشت پر سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ تب آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور تین مرتبہ یوں بددعا کی: ’’یا اللہ! قریش سے بدلہ لے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کا یوں بددعا کرنا ان پر بڑا گراں گزرا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام بہ نام فرمایا: ’’یا اللہ! ابوجہل سے انتقام لے۔ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کی ہلاکت کو اپنے اوپر لازم کر۔‘‘ ساتویں شخص کا بھی نام لیا لیکن میں وہ بھول گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ان لوگوں کو دیکھا، جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم ابواب بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ جو چیزیں ابتدائے نماز میں دخول کےلیے مانع قراردی گئی ہیں اگر اثنائے نماز میں بدن یا کپڑے کولگ جائیں تو یہ چیزیں بقائے نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، گویا آپ ابتدا اور بقا کا فرق بیان کررہے ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ دوران نمازمیں اگر کوئی نمازی پر گندگی پھینک دے یا مردار کے جسم کا کوئی حصہ ڈال دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ دراصل امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں ایک مسئلہ بیان کیا تھا کہ پانی میں اگرپیشاب وغیرہ پڑ جائے تو پانی اس وقت نجس ہوگا جب اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوجائے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ سبب نجاست موجود ہے۔ لیکن حکم نجاست ندارد! یہ عجیب بات ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اشکال کو دور کرنے کے لیے نماز کا مسئلہ بیان کردیا کہ بعض اوقات دوران نماز میں سبب نجاست موجود ہوتا ہے، لیکن حکم نجاست مؤخر کردیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کا ایک اثر پیش کیا ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ (317/3) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ نماز کی حالت میں کپڑے پر خون کا اثر دیکھتے تو اگر کپڑے اتار سکتے تو اتاردیتے، بصورت دیگر نماز سے ہٹ کر اسے دھوتے اور پھر باقی نماز بنا کرکے پوری کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امر مذکور کی تصحیح کے بعد لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ابتداء اوردوام میں فرق کرتے تھے اور یہی قول ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین ؒ کا ہے۔ (فتح الباري:453/1) اس اثر کے جواب میں علامہ عینی لکھتے ہیں کہ اثر مذکور کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت نماز اگر نمازی پر کوئی نجاست گر جائے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی، جبکہ حضرت ابن عمرؓ اگردوران نماز میں اپنے کپڑے پر کوئی خون کا نشان دیکھتے تو اسے اتار دیتے اور نماز جاری رکھتے تھے، یعنی کپڑے پر نجاست کی موجودگی میں وہ نماز جائز نہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اتار کر الگ کردیتے، لہذا حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ابتدا اور دوام میں فرق کرتے تھے۔ درست نہیں، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کسی حالت میں بھی نجاست آلود کپڑے میں نماز درست نہ سمجھتے تھے۔ (عمدة القاري:671/2) امام شعبی اور سعید بن مسیب ؒ کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ (463/3) میں موصولاً بیان ہوا ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ اگرچہ تمام ائمہ سے الگ ہے، تاہم روایت مذکور سے اسے تقویت ملتی ہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں نماز کو جاری رکھا اور سلام کے بعد ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ (فتح الباري:456/1) لیکن حافظ ا بن حجرؒ نے لکھا ہے کہ آپ پر نجاست پھینکنے کا واقعہ نماز کے وقت کپڑے پاک رکھنے کےحکم سے پہلے کا ہے، چنانچہ ابن منذر سے منقول ہے کہ یہ واقعہ آیت:﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾ کے نزول سے پہلے کا ہے، بلکہ اس آیت کی شان نزول ہی یہ واقعہ ہے۔ (فتح الباري:866/8) مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ داخلی قرائن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورہ مدثر کے نزول سے پہلے لوگوں کو آپ سے اس قدر عداوت نہ تھی کہ وہ دوران نماز میں آپ سے اس طرح کی حرکت کریں، کیونکہ سورہ مدثر فترتِ وحی کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس فترت کے تین سال ہیں۔ اس سورت میں آپ کو تبلیغ کرنے کا حکم ہوا اور تبلیغ کرنے کے نتیجے میں آپ سے لوگوں کی عداوت کا آغاز ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد کا ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ روایت میں ہے کہ ساتویں شخص کا نام بھی لیا، لیکن راوی کو بھول گیا، بھولنے والے ابواسحاق راوی حدیث ہیں، کبھی ان کو یاد آتا تو اس کی وضاحت کر دیتے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ عمارہ بن ولید تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث:520) لیکن عمارہ بن ولید غزوہ بدر کے موقع پر نہیں مرا بلکہ وہ حبشہ کی سرزمین پر واصل جہنم ہوا، جبکہ اس نے نجاشی کی عورت کے ساتھ شرارت کی تھی۔ (فتح الباري:457/1) اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بھی میدان بدر میں نہیں ماراگیا، بلکہ اسے میدان بدر میں قید کر کے مدینہ کے پاس پہنچ کر قتل کیا گیا۔ جیسا کہ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے۔ اسے عرق الظبیہ کے مقام پر خود رسول اللہ ﷺ نے قتل کیا اور آپ نے اسے قتل کرتے وقت نجاست ڈالنے کا واقعہ بھی یاد دلایا۔ (عمدة القاری: 677/2) معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ کہنا: میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کارسول اللہ ﷺ نے نام لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے، یہ اکثریت کی بنا پر ہے، کیونکہ تمام کے تمام اس کنویں میں نہیں پھینکے گئے تھے۔ (فتح الباري:457/1) 4۔ حضرت فاطمہ ؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسبی شرافت اور بلندی مرتبہ کے ساتھ ساتھ حوصلے اور دل کی بھی مضبوط تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے برملا طور پر سرداران قریش کو بُرا بھلا کہا اور کسی کو ان کے مقابلے میں جواب دینے کی بھی جرائت نہ ہوسکی۔ (فتح الباري:458/1) 5۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا یہی موقف ہے کہ دوران نماز نجاست لگنے سے نماز میں خلل نہیں آتا، البتہ نماز کے آغاز میں ہر قسم کی طہارت کا اہتمام ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
242
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
240
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
240
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
240
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓجب نماز پڑھتے وقت کپڑے میں خون لگا ہوا دیکھتے تو اس کو اتار ڈالتے اور نماز پڑھتے اور نماز پڑھتے رہتے، ابن مسیب اور شعبی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے کپڑے پر نجاست یا جنابت لگی ہو، یا ( بھول کر ) قبلے کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھی ہو یا تیمم کر کے نماز پڑھی ہو، پھر نماز ہی کے وقت میں پانی مل گیا ہو تو ( اب ) نماز نہ دہرائے۔ان آثار کو عبدالرزاق اور سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے صحیح اسانید سے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے: تم میں سے کون جاتا ہے کہ فلاں قبیلے کی اونٹنی کی بچہ دانی لے آئے، جسے وہ سجدے کی حالت میں محمد (ﷺ) کی پشت پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر دیکھتا رہا۔ جب نبی ﷺ سجدے میں گئے تو اس نے اسے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر رکھ دیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ تو رہا تھا لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش کہ مجھے تحفظ حاصل ہوتا، پھر وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ سجدے ہی میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھایا تا آنکہ حضرت فاطمہ ؓا آئیں اور آپ کی پشت پر سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ تب آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور تین مرتبہ یوں بددعا کی: ’’یا اللہ! قریش سے بدلہ لے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کا یوں بددعا کرنا ان پر بڑا گراں گزرا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام بہ نام فرمایا: ’’یا اللہ! ابوجہل سے انتقام لے۔ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کی ہلاکت کو اپنے اوپر لازم کر۔‘‘ ساتویں شخص کا بھی نام لیا لیکن میں وہ بھول گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ان لوگوں کو دیکھا، جن کا نام رسول اللہ ﷺ نے لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم ابواب بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ جو چیزیں ابتدائے نماز میں دخول کےلیے مانع قراردی گئی ہیں اگر اثنائے نماز میں بدن یا کپڑے کولگ جائیں تو یہ چیزیں بقائے نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، گویا آپ ابتدا اور بقا کا فرق بیان کررہے ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ دوران نمازمیں اگر کوئی نمازی پر گندگی پھینک دے یا مردار کے جسم کا کوئی حصہ ڈال دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ دراصل امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں ایک مسئلہ بیان کیا تھا کہ پانی میں اگرپیشاب وغیرہ پڑ جائے تو پانی اس وقت نجس ہوگا جب اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوجائے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ سبب نجاست موجود ہے۔ لیکن حکم نجاست ندارد! یہ عجیب بات ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اشکال کو دور کرنے کے لیے نماز کا مسئلہ بیان کردیا کہ بعض اوقات دوران نماز میں سبب نجاست موجود ہوتا ہے، لیکن حکم نجاست مؤخر کردیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کا ایک اثر پیش کیا ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ (317/3) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ نماز کی حالت میں کپڑے پر خون کا اثر دیکھتے تو اگر کپڑے اتار سکتے تو اتاردیتے، بصورت دیگر نماز سے ہٹ کر اسے دھوتے اور پھر باقی نماز بنا کرکے پوری کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امر مذکور کی تصحیح کے بعد لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ابتداء اوردوام میں فرق کرتے تھے اور یہی قول ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین ؒ کا ہے۔ (فتح الباري:453/1) اس اثر کے جواب میں علامہ عینی لکھتے ہیں کہ اثر مذکور کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت نماز اگر نمازی پر کوئی نجاست گر جائے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی، جبکہ حضرت ابن عمرؓ اگردوران نماز میں اپنے کپڑے پر کوئی خون کا نشان دیکھتے تو اسے اتار دیتے اور نماز جاری رکھتے تھے، یعنی کپڑے پر نجاست کی موجودگی میں وہ نماز جائز نہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اتار کر الگ کردیتے، لہذا حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ابتدا اور دوام میں فرق کرتے تھے۔ درست نہیں، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کسی حالت میں بھی نجاست آلود کپڑے میں نماز درست نہ سمجھتے تھے۔ (عمدة القاري:671/2) امام شعبی اور سعید بن مسیب ؒ کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ (463/3) میں موصولاً بیان ہوا ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ اگرچہ تمام ائمہ سے الگ ہے، تاہم روایت مذکور سے اسے تقویت ملتی ہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں نماز کو جاری رکھا اور سلام کے بعد ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ (فتح الباري:456/1) لیکن حافظ ا بن حجرؒ نے لکھا ہے کہ آپ پر نجاست پھینکنے کا واقعہ نماز کے وقت کپڑے پاک رکھنے کےحکم سے پہلے کا ہے، چنانچہ ابن منذر سے منقول ہے کہ یہ واقعہ آیت:﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾ کے نزول سے پہلے کا ہے، بلکہ اس آیت کی شان نزول ہی یہ واقعہ ہے۔ (فتح الباري:866/8) مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ داخلی قرائن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورہ مدثر کے نزول سے پہلے لوگوں کو آپ سے اس قدر عداوت نہ تھی کہ وہ دوران نماز میں آپ سے اس طرح کی حرکت کریں، کیونکہ سورہ مدثر فترتِ وحی کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس فترت کے تین سال ہیں۔ اس سورت میں آپ کو تبلیغ کرنے کا حکم ہوا اور تبلیغ کرنے کے نتیجے میں آپ سے لوگوں کی عداوت کا آغاز ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد کا ہے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ روایت میں ہے کہ ساتویں شخص کا نام بھی لیا، لیکن راوی کو بھول گیا، بھولنے والے ابواسحاق راوی حدیث ہیں، کبھی ان کو یاد آتا تو اس کی وضاحت کر دیتے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ عمارہ بن ولید تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث:520) لیکن عمارہ بن ولید غزوہ بدر کے موقع پر نہیں مرا بلکہ وہ حبشہ کی سرزمین پر واصل جہنم ہوا، جبکہ اس نے نجاشی کی عورت کے ساتھ شرارت کی تھی۔ (فتح الباري:457/1) اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بھی میدان بدر میں نہیں ماراگیا، بلکہ اسے میدان بدر میں قید کر کے مدینہ کے پاس پہنچ کر قتل کیا گیا۔ جیسا کہ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے۔ اسے عرق الظبیہ کے مقام پر خود رسول اللہ ﷺ نے قتل کیا اور آپ نے اسے قتل کرتے وقت نجاست ڈالنے کا واقعہ بھی یاد دلایا۔ (عمدة القاری: 677/2) معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ کہنا: میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کارسول اللہ ﷺ نے نام لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے، یہ اکثریت کی بنا پر ہے، کیونکہ تمام کے تمام اس کنویں میں نہیں پھینکے گئے تھے۔ (فتح الباري:457/1) 4۔ حضرت فاطمہ ؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسبی شرافت اور بلندی مرتبہ کے ساتھ ساتھ حوصلے اور دل کی بھی مضبوط تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے برملا طور پر سرداران قریش کو بُرا بھلا کہا اور کسی کو ان کے مقابلے میں جواب دینے کی بھی جرائت نہ ہوسکی۔ (فتح الباري:458/1) 5۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا یہی موقف ہے کہ دوران نماز نجاست لگنے سے نماز میں خلل نہیں آتا، البتہ نماز کے آغاز میں ہر قسم کی طہارت کا اہتمام ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ گر نماز پڑھتے ہوئے اپنے کپڑے پر خون دیکھتے تو نماز جاری رکھتے اور کپڑا اتار دیتے۔ حضرت سعید بن مسیب اور امام شعبی بیان کرتے ہیں: جب کوئی شخص ایسی حالت میں نماز پڑھے کہ اس کے کپڑے پر خون یا منی لگی ہو یا اس کا رخ غیر قبلے کی طرف ہو یا اس نے تیمم سے نماز پڑھی ہو، پھر وقت کے اندر اسے پانی میسر آ گیا ہو تو وہ نماز کا اعادہ نہیں کرے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے میرے باپ (عثمان) نے شعبہ سے خبر دی، انھوں نے ابواسحاق سے، انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے۔ (ایک دوسری سند سے) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ ﷺ سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ ﷺ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ ﷺ نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے، پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ ﷺ نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرنماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آپڑے تونماز ہوجائے گی۔ اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔ عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): Once the Prophet (ﷺ) was offering prayers at the Ka’bah. Abu Jahl was sitting with some of his companions. One of them said to the others, "Who amongst you will bring the abdominal contents (intestines, etc.) of a camel of Bani so and so and put it on the back of Muhammad, when he prostrates?" The most unfortunate of them got up and brought it. He waited till the Prophet (ﷺ) prostrated and then placed it on his back between his shoulders. I was watching but could not do anything. I wish I had some people with me to hold out against them. They started laughing and falling on one another. Allah's Apostle (ﷺ) was in prostration and he did not lift his head up till Fatima (Prophet's daughter) came and threw that (camel's abdominal contents) away from his back. He raised his head and said thrice, "O Allah! Punish Quraish." So it was hard for Abu Jahl and his companions when the Prophet (ﷺ) invoked Allah against them as they had a conviction that the prayers and invocations were accepted in this city (Makkah). The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Punish Abu Jahl, 'Utba bin Rabi'a, Shaiba bin Rabi'a, Al-Walid bin 'Utba, Umaiya bin Khalaf, and 'Uqba bin Al Mu'it (and he mentioned the seventh whose name I cannot recall). By Allah in Whose Hands my life is, I saw the dead bodies of those persons who were counted by Allah's Apostle (ﷺ) in the Qalib (one of the wells) of Badr.