باب : قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: About the people and quarrels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2413.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
تشریح:
(1) پہلی دو روایات میں تھا کہ ایک یہودی کے دعویٰ کرنے پر مسلمان کی سرزنش کی گئی، اس طرح عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، اس روایت میں ایک جرم کی پاداش میں یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ اسلامی عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بےجا کسی کی طرف داری کرے یا بلاوجہ کسی کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قاتل کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا ہو لیکن کچھ ائمۂ کرام کا موقف ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا لیکن ان کا یہ موقف حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے: ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا جس نے چاندی کے کڑے پہن رکھے تھے۔ یہودی نے لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور اس کے کڑے اتار لیے، چنانچہ سزا کے طور پر یہودی کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2330
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2413
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2413
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2413
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی دو روایات میں تھا کہ ایک یہودی کے دعویٰ کرنے پر مسلمان کی سرزنش کی گئی، اس طرح عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، اس روایت میں ایک جرم کی پاداش میں یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ اسلامی عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بےجا کسی کی طرف داری کرے یا بلاوجہ کسی کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قاتل کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا ہو لیکن کچھ ائمۂ کرام کا موقف ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا لیکن ان کا یہ موقف حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے: ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا جس نے چاندی کے کڑے پہن رکھے تھے۔ یہودی نے لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور اس کے کڑے اتار لیے، چنانچہ سزا کے طور پر یہودی کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔ و عند الطحاوي عدا یهودي في عهد رسول اللہ صلی اللہ علیه علی جاریة فأخذ أوضاخا کانت علیها و رضح رأسها و الأوضاخ نوع من الحلي یعمل من الفضة و لمسلم فرضح رأسها بین حجرین و للترمذي خرجت جاریة علیها أوضاح فأخذها یهودي فرضح رأسها و أخذا ما علیها من الحلي قال فأدرکت و بها رمق فأتي بها النبي صلی اللہ علیه وسلم قیل الحدیث۔یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔ اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔ احتج بہ المالکیة و الشافعیة و الحنابلة و الجمهور علی أن من قتل بشيئ یقتل بمثله (قسطلانی) یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔ قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت امام ؒ نے خود فرما دیا ہے إذا صح الحدیث فهو مذھب یعنی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): A Jew crushed the head of a girl between two stones. The girl was asked who had crushed her head, and some names were mentioned before her, and when the name of the Jew was mentioned, she nodded agreeing. The Jew was captured and when he confessed, the Prophet (ﷺ) ordered that his head be crushed between two stones.