Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: The talk of opponents against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2416.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کامال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ حضرت اشعث ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ حدیث میرے متعلق وارد ہے۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کا تنازع تھا۔ وہ مجھے زمین دینے سے انکار کرتا تھا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ’’تیرے پاس کوئی دلیل(گواہ) ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے کہا: ’’تم قسم اٹھاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے اُڑے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسم کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ آخر آیت تک۔
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ آپس میں سخت کلامی سے پیش آتے ہیں اور عدالت ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی، تو ایسا ممکن ہے بشرطیکہ وہ گفتگو فحش کلامی اور کردار کشی پر مبنی نہ ہو، ہاں اگر کوئی اپنی گفتگو سے عدالت کا احترام مجروح کرتا ہے تو اس کا نوٹس لیا جائے گا۔ اس حدیث کے مطابق حضرت اشعث ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہودی کے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم اٹھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ چونکہ حضرت اشعث ؓ اس یہودی کے کردار سے واقف تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) عدالت کے سامنے ایسا بیان جس پر کوئی تعزیر یا حد واجب نہ ہو، اسے حرام غیبت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے مدعا علیہ کی کردار کشی ہی پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري:93/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2333
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2416
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2416
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2416
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
( یہ غیبت میں داخل نہیں ہے ) بشرطیکہ ایسا کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالیں جس میں حد یا تعزیر واجب ہو، ورنہ سزا دی جائے گی ) باب کے ذیل حافظ مرحوم فرماتے ہیں : ای فیما لا یوجب حدا و لا تعزیرا فلا یکون ذلک من الغیبة المحرمة ذکر فیہ اربعة احادیث یعنی مدعی اور مدعی علیہ آپس میں ایسا کلام کریں جس پر حد واجب نہ ہوتی ہو اور نہ تعزیر۔ پس ایسا کلام غیبت محرمہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس باب کے ذیل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چار احادیث ذکر فرمائی ہے پہلی اور دسری حدیث ابن مسعود اور اشعث رضی اللہ عنہ کی ہے والغرض منه قولہ قلت یا رسول اللہ اذا یحلف و یذهب بما لی فانه نسبه الی الحلف الکاذب و لم یوخذ بذلک لانه اخبر بما یعلمه منه فی حال التظلم منه یعنی غرض حدیث اشعث رضی اللہ عنہ سے یہ ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدعیٰ علیہ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم کھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ آپ نے مدعی کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ تیسری حدیث کعب بن مالک ؓ کی ہے۔ جس میں فارتفعت اصواتهما کے الفاظ ہیں اور بعض طرق میں فتلاحیا کا لفظ بھی آیا ہے کہ وہ دونوں باہمی طور پر جھگڑنے لگے۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوگا ہے۔ چھوٹی حدیث ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس میں حضرت عمر ؓ نے محض اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت ہشام ؓ پر انکار فرمایا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ دوران مقدمہ عین عدالت میں مدعی اور مدعیٰ علیہ آپس میں بعض دفعہ کچھ سخت کلامی کر گزرتے ہیں اوربعض اوقات عدالت ان پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہاں اگر حد کے باہر کوئی شخص عدالت کا احترام بالائے طاق رکھ کر سخت کلامی کرے گا تو یقینا وہ قابل سزا ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کامال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ حضرت اشعث ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ حدیث میرے متعلق وارد ہے۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کا تنازع تھا۔ وہ مجھے زمین دینے سے انکار کرتا تھا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ’’تیرے پاس کوئی دلیل(گواہ) ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے کہا: ’’تم قسم اٹھاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے اُڑے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسم کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ آپس میں سخت کلامی سے پیش آتے ہیں اور عدالت ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی، تو ایسا ممکن ہے بشرطیکہ وہ گفتگو فحش کلامی اور کردار کشی پر مبنی نہ ہو، ہاں اگر کوئی اپنی گفتگو سے عدالت کا احترام مجروح کرتا ہے تو اس کا نوٹس لیا جائے گا۔ اس حدیث کے مطابق حضرت اشعث ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہودی کے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم اٹھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ چونکہ حضرت اشعث ؓ اس یہودی کے کردار سے واقف تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) عدالت کے سامنے ایسا بیان جس پر کوئی تعزیر یا حد واجب نہ ہو، اسے حرام غیبت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے مدعا علیہ کی کردار کشی ہی پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري:93/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس نے کوئی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کرلے۔ تو وہ اللہ تعالی ٰکے سامنے اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اللہ پاک اس پر نہایت ہی غضبناک ہوگا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر اشعث ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ سے ہی متعلق ایک مسئلے میں رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ اس نے انکار کیا تو میں نے مقدمہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا، کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے یہودی سے فرمایا کہ پھر تو قسم کھا۔ اشعث ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! پھر تویہ جھوٹی قسم کھا لے گا اور میرا مال اڑا لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالی ٰنے یہ آیت نازل فرمائی، بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونچی خریدتے ہیں۔ آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
مدعی یعنی اشعث ؓ نے عدالت عالیہ نبویہ میں یہودی کی خامی کو صاف لفظوں میں ظاہر کر دیا۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ مقدمہ سے متعلق مدعی اور مدعی علیہ عدالت میں اپنے اپنے دلائل واضح کردیں، اس کا نام غیبت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever takes a false oath so as to take the property of a Muslim (illegally) will meet Allah while He will be angry with him." Al-Ash'ath said: By Allah, that saying concerned me. I had common land with a Jew, and the Jew later on denied my ownership, so I took him to the Prophet (ﷺ) who asked me whether I had a proof of my ownership. When I replied in the negative, the Prophet (ﷺ) asked the Jew to take an oath. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He will take an oath and deprive me of my property." So, Allah revealed the following verse: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant and their oaths." (3.77)