Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: The talk of opponents against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2419.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو سورہ فرقان اس طریقے سے پڑھتے ہوئے سنا کہ جس طرح میں پڑھتا تھا وہ اس کے خلاف تھا، حالانکہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس طریقے کے مطابق پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ میں ان جھپٹ پڑوں لیکن میں نے صبر سے کام لیا۔ جب وہ قراءت سے فارغ ہوئے تو میں نے انھی کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا۔ میں نے عرض کیا: یہ سورہ فرقان اس طریقے کے خلاف پڑھتے ہیں جو آپ نے مجھے سکھایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو۔‘‘ پھر ان سے فرمایا: ’’پڑھو۔‘‘ انھوں نے پڑھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح نازل ہوئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’پڑھو۔‘‘ میں نے پڑھا تو آپ نےفرمایا: ’’یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ بے شک قر آن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے۔ تمھیں جو آسان ہو اس کے مطابق پڑھو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر حضرت ہشام ؓ کی قراءت کا نوٹس لیا، بلکہ عملی طور پر ان کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا اور ان کے متعلق بیان دیا کہ انہوں نے قرآن اس طریقے کے خلاف پڑھا ہے جو آپ نے مجھے سکھایا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ صحیح صورت حال سے انہیں آگاہ کر دیا۔ (فتح الباري:94/5) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ دینی معاملات میں بہت سخت تھے اور ان کے بعد حضرت ہشام ؓ سب سے زیادہ سخت تھے، چنانچہ حضرت عمر ؓ جب کوئی مکروہ اور ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: جب تک میں اور ہشام بن حکیم زندہ ہیں اس قسم کی مکروہ چیز دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ (عمدة القاري:148/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2335
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2419
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2419
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2419
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
( یہ غیبت میں داخل نہیں ہے ) بشرطیکہ ایسا کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالیں جس میں حد یا تعزیر واجب ہو، ورنہ سزا دی جائے گی ) باب کے ذیل حافظ مرحوم فرماتے ہیں : ای فیما لا یوجب حدا و لا تعزیرا فلا یکون ذلک من الغیبة المحرمة ذکر فیہ اربعة احادیث یعنی مدعی اور مدعی علیہ آپس میں ایسا کلام کریں جس پر حد واجب نہ ہوتی ہو اور نہ تعزیر۔ پس ایسا کلام غیبت محرمہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس باب کے ذیل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چار احادیث ذکر فرمائی ہے پہلی اور دسری حدیث ابن مسعود اور اشعث رضی اللہ عنہ کی ہے والغرض منه قولہ قلت یا رسول اللہ اذا یحلف و یذهب بما لی فانه نسبه الی الحلف الکاذب و لم یوخذ بذلک لانه اخبر بما یعلمه منه فی حال التظلم منه یعنی غرض حدیث اشعث رضی اللہ عنہ سے یہ ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدعیٰ علیہ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم کھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ آپ نے مدعی کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ تیسری حدیث کعب بن مالک ؓ کی ہے۔ جس میں فارتفعت اصواتهما کے الفاظ ہیں اور بعض طرق میں فتلاحیا کا لفظ بھی آیا ہے کہ وہ دونوں باہمی طور پر جھگڑنے لگے۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوگا ہے۔ چھوٹی حدیث ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس میں حضرت عمر ؓ نے محض اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت ہشام ؓ پر انکار فرمایا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ دوران مقدمہ عین عدالت میں مدعی اور مدعیٰ علیہ آپس میں بعض دفعہ کچھ سخت کلامی کر گزرتے ہیں اوربعض اوقات عدالت ان پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہاں اگر حد کے باہر کوئی شخص عدالت کا احترام بالائے طاق رکھ کر سخت کلامی کرے گا تو یقینا وہ قابل سزا ہوگا۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو سورہ فرقان اس طریقے سے پڑھتے ہوئے سنا کہ جس طرح میں پڑھتا تھا وہ اس کے خلاف تھا، حالانکہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس طریقے کے مطابق پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ میں ان جھپٹ پڑوں لیکن میں نے صبر سے کام لیا۔ جب وہ قراءت سے فارغ ہوئے تو میں نے انھی کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا۔ میں نے عرض کیا: یہ سورہ فرقان اس طریقے کے خلاف پڑھتے ہیں جو آپ نے مجھے سکھایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو۔‘‘ پھر ان سے فرمایا: ’’پڑھو۔‘‘ انھوں نے پڑھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح نازل ہوئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’پڑھو۔‘‘ میں نے پڑھا تو آپ نےفرمایا: ’’یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ بے شک قر آن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے۔ تمھیں جو آسان ہو اس کے مطابق پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر حضرت ہشام ؓ کی قراءت کا نوٹس لیا، بلکہ عملی طور پر ان کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا اور ان کے متعلق بیان دیا کہ انہوں نے قرآن اس طریقے کے خلاف پڑھا ہے جو آپ نے مجھے سکھایا تھا، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے ان کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ صحیح صورت حال سے انہیں آگاہ کر دیا۔ (فتح الباري:94/5) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ دینی معاملات میں بہت سخت تھے اور ان کے بعد حضرت ہشام ؓ سب سے زیادہ سخت تھے، چنانچہ حضرت عمر ؓ جب کوئی مکروہ اور ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو فرماتے: جب تک میں اور ہشام بن حکیم زندہ ہیں اس قسم کی مکروہ چیز دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ (عمدة القاري:148/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر ؓ نے، انہیں عبدالرحمن بن عبدالقاری نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو سورۃ فرقان ایک دفعہ اس قرات سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرات خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرات کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرات سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرات سنائی۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراءتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
یعنی عرب کے ساتوں قبیلوں کے محاورے اور طرز پر اور کہیں کہیں اختلاف حرکات یا اختلاف حروف سے کوئی ضرر نہیں بشرطیکہ معانی اور مطالب میں فرق نہ آئے، جیسے سات قراءتوں کے اختلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید مشہور سات قراءتوں میں سے ہر قراءت کے موافق پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شاذ قراءت کے ساتھ پڑھنا اکثر علماءنے درست نہیں رکھا جیسے حضرت عائشہ ؓ کی قراۃ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ یا ابن مسعود ؓ کی قرات فما استمتعتم منهن إلی أجل مسمی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): I heard Hisham bin Hakim bin Hizam reciting Surat-al-Furqan in a way different to that of mine. Allah's Apostle (ﷺ) had taught it to me (in a different way). So, I was about to quarrel with him (during the prayer) but I waited till he finished, then I tied his garment round his neck and seized him by it and brought him to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I have heard him reciting Surat-al-Furqan in a way different to the way you taught it to me." The Prophet (ﷺ) ordered me to release him and asked Hisham to recite it. When he recited it, Allah s Apostle (ﷺ) said, "It was revealed in this way." He then asked me to recite it. When I recited it, he said, "It was revealed in this way. The Qur'an has been revealed in seven different ways, so recite it in the way that is easier for you."