مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2425.
حضرت خباب ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا۔ عاص بن وائل کے ذمے میرے کچھ درہم تھے۔ میں اس کے پاس آیا اور اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: میں اس وقت تک تمہارے پیسے نہیں دوں گا جب تک تم محمد(ﷺ) کا انکار نہیں کروگے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم!میں حضرت محمد ﷺ کا انکار نہیں کروں گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تجھے مارے اور پھر زندہ کرے۔ اس نے جواب دیا: تو پھر مجھے مارے اور پھر زندہ کرے۔ اس نے جواب دیا: تو پھر مجھے چھوڑ دو حتیٰ کہ میں مروں اور پھر اٹھایا جاؤں، اور مجھے مال واولاد ملے، تب میں تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات اس سلسلے میں نازل ہوئیں: ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے میری آیات کا انکار کیا اور کہا: میں وہاں مال واولاد دیا جاؤں گا۔۔۔ ‘‘
تشریح:
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے قرض کے متعلق ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب حسن التقاضي)’’نرمی سے تقاضا کرنا‘‘ اور اس مقام پر قرض کا مطالبہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ عام طور پر یہ محاورہ ہے: (القرض مقراض المحبة)قرض، محبت کی قینچی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس سے تعلقات خراب کرنا ہوں اسے قرض دے دیا جائے یا اس سے لے لیا جائے۔ شاید کوئی ان باتوں سے یہ تاثر لے کہ قرض دے کر واپسی کا مطالبہ کرنا اخلاق و مروت کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ قرض خواہ کا حق ہے کہ قرض دار سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرے، بلکہ اس کے پاس جا کر اسے احساس دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت خباب ؓ اپنی مزدوری کا مطالبہ کرنے کے لیے عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں تشریف لے گئے۔ یہ مزدوری گویا وائل کے ذمے قرض تھی۔ اس نے جو کردار ادا کیا وہ انتہائی نامعقول اور تکلیف دہ تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا نوٹس لیا۔ الغرض قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز اور درست ہے اور یہ اخلاقی روا داری کے منافی نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2341
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2425
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2425
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2425
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت خباب ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا۔ عاص بن وائل کے ذمے میرے کچھ درہم تھے۔ میں اس کے پاس آیا اور اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: میں اس وقت تک تمہارے پیسے نہیں دوں گا جب تک تم محمد(ﷺ) کا انکار نہیں کروگے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم!میں حضرت محمد ﷺ کا انکار نہیں کروں گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تجھے مارے اور پھر زندہ کرے۔ اس نے جواب دیا: تو پھر مجھے مارے اور پھر زندہ کرے۔ اس نے جواب دیا: تو پھر مجھے چھوڑ دو حتیٰ کہ میں مروں اور پھر اٹھایا جاؤں، اور مجھے مال واولاد ملے، تب میں تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات اس سلسلے میں نازل ہوئیں: ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے میری آیات کا انکار کیا اور کہا: میں وہاں مال واولاد دیا جاؤں گا۔۔۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے قرض کے متعلق ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب حسن التقاضي)’’نرمی سے تقاضا کرنا‘‘ اور اس مقام پر قرض کا مطالبہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔ عام طور پر یہ محاورہ ہے: (القرض مقراض المحبة)قرض، محبت کی قینچی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس سے تعلقات خراب کرنا ہوں اسے قرض دے دیا جائے یا اس سے لے لیا جائے۔ شاید کوئی ان باتوں سے یہ تاثر لے کہ قرض دے کر واپسی کا مطالبہ کرنا اخلاق و مروت کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ قرض خواہ کا حق ہے کہ قرض دار سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرے، بلکہ اس کے پاس جا کر اسے احساس دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت خباب ؓ اپنی مزدوری کا مطالبہ کرنے کے لیے عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں تشریف لے گئے۔ یہ مزدوری گویا وائل کے ذمے قرض تھی۔ اس نے جو کردار ادا کیا وہ انتہائی نامعقول اور تکلیف دہ تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا نوٹس لیا۔ الغرض قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز اور درست ہے اور یہ اخلاقی روا داری کے منافی نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر بن حازم نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے، اور ان سے خباب ؓ نے بیان کیا کہ میں جاہلیت کے زمانہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل (کافر) پر میرے کچھ روپے قرض تھے۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ جب تک تو محمد (ﷺ) کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! میں حضرت محمد ﷺ کا انکار کبھی نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مارے اور پھر تم کو اٹھائے۔ وہ کہنے لگا کہ پھر مجھ سے بھی تقاضا نہ کر۔ میں جب مر کے دوبارہ زندہ ہوں گا تو مجھے (دوسری زندگی میں) مال اور اولاد دی جائے گی تو تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ”تم نے ا س شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے مال اور اولاد ضرور دی جائے گی۔“ آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
حضرت خباب ؓ، عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں اپنی مزدوری وصول کرنے کا تقاضا کرنے گئے۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ عاص نے جو جواب دیا وہ انتہائی نامعقول جواب تھا۔ جس پر قرآن مجید میں نوٹس لیا گیا۔ اس حدیث سے مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے کئی ایک مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ ا س لیے متعدد مقامات پر یہ حدیث نقل کی گئی ہے جو حضرت امام بخاری ؒ کے تفقہ و قوت اجتہاد کی بین دلیل ہے۔ ہزار افسوس ان اہل جبہ و دستار پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فقیہ امت کی شان میں تنقیص کرتے اورآپ کی فہم و درایت سے منکر ہو کر خود اپنی نافہمی کا ثبوت دیتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ ان ابواب کے خاتمہ پر فرماتے ہیں :اشْتَمَلَ كِتَابُ الِاسْتِقْرَاضِ وَمَا مَعَهُ مِنَ الْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ وَمَا اتَّصَلَ بِهِ مِنَ الْإِشْخَاصِ وَالْمُلَازَمَةِ عَلَى خَمْسِينَ حَدِيثًا الْمُعَلَّقُ مِنْهَا سِتَّةٌ الْمُكَرَّرُ مِنْهَا فِيهِ وَفِيمَا مَضَى ثَمَانِيَةٌ وَثَلَاثُونَ حَدِيثًا وَالْبَقِيَّةُ خَالِصَةٌ وَافَقَهُ مُسْلِمٌ عَلَى جَمِيعِهَا سِوَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا وَحَدِيثِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبا وَحَدِيث لي الْوَاجِد وَحَدِيث بن مَسْعُودٍ فِي الِاخْتِلَافِ فِي الْقِرَاءَةِ وَفِيهِ مِنَ الْآثَارِ عَنِ الصَّحَابَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ اثْنَا عَشَرَ أثرا وَالله أعلم(فتح الباري) یعنی یہ کتاب الاستقراض و الملازمہ پچاس احادیث پر مشتمل ہے۔ جن میں احادیث معلقہ صرف چھ ہیں۔ مکرر احادیث اڑتیس ہیں اور باقی خاصل ہیں۔ امام مسلم نے بجز چند احادیث کے جویہاں مذکور ہیں سب میں حضرت امام بخاری ؒ سے موافقت کی ہے اور ان ابواب میں صحابہ و تابعین کے بارہ آثار مذکور ہوئے ہیں۔ سند میں مذکورہ بزرگ حضرت مسروق ابن الاجداع ہیں۔ جو ہمدانی اور کوفی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی وفات سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ صحابہ کے صدر اول جیسے ابوبکر، عمر، عثمان، علی ؓ کا زمانہ پایا۔ سرکردہ علماءاور فقہاءمیں سے تھے۔ مرہ بن شرحبیل نے فرمایا کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا نیک سپوت نہیں جنا۔ شعبی نے فرمایا اگر کسی گھرانے کے لوگ جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں تو یہ ہیں اسود، علقمہ اور مسروق محمد بن منتشر نے فرمایا کہ خالد بن عبداللہ بصرہ کے عامل (گورنر) تھے۔ انہوں نے بطور ہدیہ تیس ہزار روپوں کی رقم حضرت مسروق کی خدمت میں پیش کی۔ یہ ان کے فقر کا زمانہ تھا۔ پھر بھی انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن میں ان کو چرا لیا گیا تھا، پھر مل گئے تو ان کانام مسروق ہو گیا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔ 62ھ میں بمقام کوفہ وفات پائی۔ رحمه اللہ رحمة واسعة شہر کوفہ کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص ؒ نے رکھی تھی۔ اس وقت آپ نے وہاں فرمایا تھا : تکوفوا في هذا الموضع یہاں پر جمع ہوجاؤ۔ اسی روز اس شہر کا نام کوفہ پڑ گیا۔ بعض نے اس کا کا پرانا نام کوفان بتایا ہے۔ یہ شہر عرا ق میں واقع ہے۔ عرصہ تک علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khabbab (RA): I was a blacksmith In the Pre-lslamic period of ignorance, and 'Asi bin Wail owed me some money. I went to him to demand it, but he said to me, "I will not pay you unless you reject faith in Muhammad." I replied, "By Allah, I will never disbelieve Muhammad till Allah let you die and then resurrect you." He said, "Then wait till I die and come to life again, for then I will be given property and offspring and will pay your right." So, thus revelation came: "Have you seen him who disbelieved in Our signs and yet says, 'I will be given property and offspring?' " (19.77)