باب : کسی جانور کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: No animal may be milked without the permission of its owner)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2435.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کے جانور کا دودھ نہ دوہے، کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرتاہے کہ کوئی شخص اس کے گودام میں گھس جائے، پھر اس کے تھیلوں کو کھول کر ان سے غلہ لے جائے؟ آگاہ رہو کہ مویشیوں کے تھن بھی لوگوں کے لیے ان کی غذا کے گودام ہیں، لہذا یہ جائز نہیں کہ تم میں سے کوئی دوسرے کے مویشی کو اس کی اجازت کے بغیر دوہے۔‘‘
تشریح:
(1) بعض روایات میں ہے کہ اگر جنگل میں بکریوں کا ریوڑ نظر آئے تو تین مرتبہ آواز دو، اگر کوئی چرواہا نہیں ہے تو بکریوں کا دودھ دوہ کر پی سکتے ہو۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید کرتے ہیں کہ کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں، ہاں اگر کوئی بھوک یا پیاس سے مر رہا ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ ایک اضطراری حالت ہے۔ (2) جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے اسے امام ابن ماجہ ؒ نے صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث:2300) اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ اضطراری حالت میں ایسا کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کسی کا مال اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں، مجبوری کے وقت بھی اس شرط کے ساتھ لیا جا سکتا ہے کہ اگر مالک تاوان طلب کرے تو دینا ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2351
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2435
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2435
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2435
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کے جانور کا دودھ نہ دوہے، کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرتاہے کہ کوئی شخص اس کے گودام میں گھس جائے، پھر اس کے تھیلوں کو کھول کر ان سے غلہ لے جائے؟ آگاہ رہو کہ مویشیوں کے تھن بھی لوگوں کے لیے ان کی غذا کے گودام ہیں، لہذا یہ جائز نہیں کہ تم میں سے کوئی دوسرے کے مویشی کو اس کی اجازت کے بغیر دوہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض روایات میں ہے کہ اگر جنگل میں بکریوں کا ریوڑ نظر آئے تو تین مرتبہ آواز دو، اگر کوئی چرواہا نہیں ہے تو بکریوں کا دودھ دوہ کر پی سکتے ہو۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید کرتے ہیں کہ کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں، ہاں اگر کوئی بھوک یا پیاس سے مر رہا ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ ایک اضطراری حالت ہے۔ (2) جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے اسے امام ابن ماجہ ؒ نے صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث:2300) اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ اضطراری حالت میں ایسا کیا جا سکتا ہے، عام حالات میں کسی کا مال اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں، مجبوری کے وقت بھی اس شرط کے ساتھ لیا جا سکتا ہے کہ اگر مالک تاوان طلب کرے تو دینا ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کوئی شخص کسی دوسرے کے دودھ کے جانور کو مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔ کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ ایک غیر شخص اس کے گودام میں پہنچ کر اس کا ذخیرہ کھولے اور وہاں سے اس کا غلہ چرا لائے، لوگوں کے مویشی کے تھن بھی ان کے لیے کھانا یعنی (دودھ کے) گودام ہیں۔ اس لیے انہیں بھی مالک کی اجازت کے بغیر نہ دودھا جائے۔
حدیث حاشیہ:
اضطراری حالت میں اگر جنگ میں کوئی ریوڑ مل جائے اور مضطر اپنی جان سے پریشان ہو اور بھوک وپیا س سے قریب المرگ ہو تو وہ اس حالت میں مالک کی اجازت کے بغیر بھی اس ریوڑ میں سے کسی جانور کا دودھ نکال کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ یہ مضمون دوسری جگہ بیان ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "An animal should not be milked without the permission of its owner. Does any of you like that somebody comes to his store and breaks his container and takes away his food? The udders of the animals are the stores of their owners where their provision is kept, so nobody should milk the animals of somebody else, without the permission of its owner."