باب : اللہ تعالیٰ کا سورہ ہود میں یہ فرمانا کہ ” سن لو ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "... No doubt! The curse of Allah is on the Zalimun.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2441.
حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: ’’اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے ؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن کافر اور منافق کے متعلق برملا گواہ بولیں گے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا۔ سن لو!ظلم پیشہ لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
تشریح:
(1) نجٰوی کے معنی سرگوشی کے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرمائے گا۔ یہ اس کا خاص فضل و کرم ہو گا کہ وہ درپردہ بندے کو اس کے گناہ بتائے گا اور اس سے ان کا اعتراف کرائے گا، پھر انہیں معاف کر دے گا۔ اس حدیث میں جن گناہوں کا ذکر ہے اس سے مراد حقوق العباد نہیں بلکہ وہ گناہ مراد ہیں جو صرف اللہ اور اس کے بندے کو معلوم ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا، نیز آیت کریمہ میں ظلم پیشہ لوگوں سے مراد کافر اور منافق ہیں، مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہو گا۔ اس سے ظلم کا بدلہ تو ضرور لیا جائے گا لیکن وہ ملعون قرار نہیں پائے گا۔ (2) مجموعۂ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو دنیا میں در پردہ تھی، قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں پوشیدہ رکھ کر معاف کر دے گا، پھر کچھ گناہ ایسے ہوں گے جو علانیہ سرزد ہوئے ہوں گے جن کے ضمن میں حقوق العباد بھی ہیں جن پر گرفت ہو سکتی ہے۔ باقی رہے کفارومنافقین ان پر تو سب کے سامنے کھلے عام لعنت ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2357
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2441
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2441
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2441
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: ’’اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے ؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن کافر اور منافق کے متعلق برملا گواہ بولیں گے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا۔ سن لو!ظلم پیشہ لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نجٰوی کے معنی سرگوشی کے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرمائے گا۔ یہ اس کا خاص فضل و کرم ہو گا کہ وہ درپردہ بندے کو اس کے گناہ بتائے گا اور اس سے ان کا اعتراف کرائے گا، پھر انہیں معاف کر دے گا۔ اس حدیث میں جن گناہوں کا ذکر ہے اس سے مراد حقوق العباد نہیں بلکہ وہ گناہ مراد ہیں جو صرف اللہ اور اس کے بندے کو معلوم ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا، نیز آیت کریمہ میں ظلم پیشہ لوگوں سے مراد کافر اور منافق ہیں، مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہو گا۔ اس سے ظلم کا بدلہ تو ضرور لیا جائے گا لیکن وہ ملعون قرار نہیں پائے گا۔ (2) مجموعۂ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو دنیا میں در پردہ تھی، قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں پوشیدہ رکھ کر معاف کر دے گا، پھر کچھ گناہ ایسے ہوں گے جو علانیہ سرزد ہوئے ہوں گے جن کے ضمن میں حقوق العباد بھی ہیں جن پر گرفت ہو سکتی ہے۔ باقی رہے کفارومنافقین ان پر تو سب کے سامنے کھلے عام لعنت ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، ان سے صفوان بن محرزمازنی نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر ؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جارہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول کریم ﷺ سے آپ نے (قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ وہ مومن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی، لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائیکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو کتاب الغصب میں امام بخاری ؒ ا س لیے لائے کہ آیت میں جو یہ وارد ہے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے تو ظالموں سے کافر مراد ہیں اور مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہے۔ اس سے ظلم کا بدلہ گو ضرور لیا جائے گا، پر وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Safwan bin Muhriz Almazini (RA): While I was walking with Ibn 'Umar (RA) holding his hand, a man came in front of us and asked, "What have you heard from Allah's Apostle (ﷺ) about An-Najwa?" Ibn 'Umar (RA) said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'Allah will bring a believer near Him and shelter him with His Screen and ask him: Did you commit such-and-such sins? He will say: Yes, my Lord. Allah will keep on asking him till he will confess all his sins and will think that he is ruined. Allah will say: 'I did screen your sins in the world and I forgive them for you today', and then he will be given the book of his good deeds. Regarding infidels and hypocrites (their evil acts will be exposed publicly) and the witnesses will say: These are the people who lied against their Lord. Behold! The Curse of Allah is upon the wrongdoers." (11.18)