Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: To help the oppressed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2445.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ پھر انھوں نے ان کاموں کا ذکر کیا: مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، چھینک لینے والے کو جواب دینا، سلام کا جواب دینا، مظلوم کی مدد کرنا، دعوت قبول کرنا اور کوئی قسم کھا بیٹھا ہوتو اس کی قسم پوری کرادینا۔
تشریح:
(1) مظلوم کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی بھی مظلوم کی مدد کے لیے نہیں اٹھے گا تو سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا۔ پہلے حاکم وقت کو اس کی مدد کرنی چاہیے کہ انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جائے۔ اگر حاکم وقت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تو جو بھی اس کی مدد کر سکتا ہو وہ مدد کرے۔ (2) اگر کسی نے نیک مقصد کے لیے قسم اٹھائی ہے تو اس کی مدد کی جائے اور اگر کسی غلط مقصد کے لیے ہے تو اسے خود چاہیے کہ اپنی قسم توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کرے تاکہ اسے قسم کی اہمیت کا احساس ہو۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مذکورہ حدیث اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیل کتاب الادب اور کتاب اللباس میں بیان کی جائے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2361
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2445
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2445
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2445
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
گو وہ کافر ذمی ہو۔ ایک حدیث میں ہے جس کو طحاوی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نکالا ہے کہ اللہ نے ایک بندے کے لیے حکم دیا، اس کو قبر میں سو کوڑے لگائے جائیں۔ وہ دعا اور عاجزی کرنے لگا، آخر ایک کوڑا رہ گیا، لیکن ایک ہی کوڑے سے اس کی ساری قبر آگ سے بھر پور ہو گئی۔ جب وہ حالت جاتی رہی تو اس نے پوچھا، مجھ کو یہ سزا کیوں ملی؟ فرشتوں نے کہا تو نے ایک نماز بے طہارت پڑھ لی تھی اور ایک مظلوم کو دیکھ کر اس کی مدد نہیں کی تھی وحید ) معلوم ہوا کہ مظلوم کی ہر ممکن امداد کرنا ہر بھائی کا ایک اہم انسانی فریضہ ہے۔ جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہے عن سهل بن حنیف عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال من اذل عندہ مومن فلم ینصرہ و هو یقدر علی ان ینصرہ اذله اللہ عزوجل علی روس الخلائق یوم القیمة رواہ احمد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہے۔ اور وہ باوجود قدرت کے اس کی مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ پاک اسے ساری مخلوق کے سامنے ذلیل کرے گا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں و ذهب جمہور الصحابة و التابعین الی وجوب نصر الحق و قتال الباغین(نيل ) یعنی صحابہ و تابعین اور عام علمائے اسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ حق کی مدد کے لیے کھڑا ہونا اور باغیوں سے لڑنا واجب ہے۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ پھر انھوں نے ان کاموں کا ذکر کیا: مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، چھینک لینے والے کو جواب دینا، سلام کا جواب دینا، مظلوم کی مدد کرنا، دعوت قبول کرنا اور کوئی قسم کھا بیٹھا ہوتو اس کی قسم پوری کرادینا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مظلوم کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی بھی مظلوم کی مدد کے لیے نہیں اٹھے گا تو سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا۔ پہلے حاکم وقت کو اس کی مدد کرنی چاہیے کہ انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جائے۔ اگر حاکم وقت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تو جو بھی اس کی مدد کر سکتا ہو وہ مدد کرے۔ (2) اگر کسی نے نیک مقصد کے لیے قسم اٹھائی ہے تو اس کی مدد کی جائے اور اگر کسی غلط مقصد کے لیے ہے تو اسے خود چاہیے کہ اپنی قسم توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کرے تاکہ اسے قسم کی اہمیت کا احساس ہو۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مذکورہ حدیث اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیل کتاب الادب اور کتاب اللباس میں بیان کی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعث بن سلیم نے بیان کیا، کہ میں نے معاویہ بن سوید سے سنا، انہوں نے براءبن عازب ؓ سے سنا، آپ نے بیان کیا تھا کہ ہمیں نبی کریم ﷺ نے سات چیزوں کو حکم فرمایا تھا اور سات ہی چیزوں سے منع بھی فرمایا تھا (جن چیزوں کا حکم فرمایا تھا ان میں) انہوں نے مریض کی عیادت، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے (کی دعوت) قبول کرنے، اور قسم پوری کرنے کا ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
سات مذکورہ کاموں کی اہمیت پر روشنی ڈالنا سورج کو چراغ دکھلانا ہے اس میں مظلوم کی مدد کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyah bin Suwald (RA): I heard Al-Bara' bin ' Azib (RA) saying, "The Prophet (ﷺ) orders us to do seven things and prohibited us from doing seven other things." Then Al-Bara' mentioned the following:-- (1) To pay a visit to the sick (inquiring about his health), (2) to follow funeral processions, (3) to say to a sneezer, "May Allah be merciful to you" (if he says, "Praise be to Allah!"), (4) to return greetings, (5) to help the oppressed, (6) to accept invitations, (7) to help others to fulfill their oaths. (See Hadith No. 753, Vol. 7)