باب : اس شخص کا گناہ، جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The sin of a man who quarrels unjustly)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2458.
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔‘‘
تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان جان بوجھ کر کسی ناحق بات پر جھگڑ کر کسی کا حق لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے، نیز قاضی کے فیصلے سے کوئی ناحق چیز جائز نہیں ہو جاتی، اس کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ العمل ہو گا، باطنی طور پر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور ناحق لینے والے کے درمیان وہ فیصلہ نافذ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن ضرور بازپرس ہو گی۔ (2) جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں، صورت واقعہ جس شکل میں پیش کی جاتی ہے اسے سامنے رکھ کر فیصلہ دے دیتا ہوں۔ اگر کوئی اپنی چرب زبانی سے بازی جیت لیتا ہے اور میرے فیصلے سے کسی کا حق مارتا ہے تو وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ آگ کا ٹکڑا ہے اسے قبول کرے یا ترک کر دے، یعنی وہ کسی کا حق لینے میں خود ذمہ دار ہے میرا فیصلہ اس کے لیے وہ چیز جائز نہیں کر دے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2374
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2458
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2458
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2458
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان جان بوجھ کر کسی ناحق بات پر جھگڑ کر کسی کا حق لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے، نیز قاضی کے فیصلے سے کوئی ناحق چیز جائز نہیں ہو جاتی، اس کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ العمل ہو گا، باطنی طور پر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور ناحق لینے والے کے درمیان وہ فیصلہ نافذ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن ضرور بازپرس ہو گی۔ (2) جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں، صورت واقعہ جس شکل میں پیش کی جاتی ہے اسے سامنے رکھ کر فیصلہ دے دیتا ہوں۔ اگر کوئی اپنی چرب زبانی سے بازی جیت لیتا ہے اور میرے فیصلے سے کسی کا حق مارتا ہے تو وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ آگ کا ٹکڑا ہے اسے قبول کرے یا ترک کر دے، یعنی وہ کسی کا حق لینے میں خود ذمہ دار ہے میرا فیصلہ اس کے لیے وہ چیز جائز نہیں کر دے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ ؓ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو (اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جب تک خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نہ آئے میں بھی تمہاری طرح غیب کی باتوں سے ناواقف رہتا ہوں کیوں کہ میں بھی آدمی ہوں اور آدمیت کے لوازم سے پاک نہیں ہوں۔ اس حدیث سے ان بے وقوفوں کا رد ہوا جو آنحضرت ﷺ کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں یا آنحضرت ﷺ کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ الوہیت کی صفات سے متصف جانتے ہیں۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) heard some people quarreling at the door of his dwelling. He came out and said, "I am only a human being, and opponents come to me (to settle their problems); maybe someone amongst you can present his case more eloquently than the other, whereby I may consider him true and give a verdict in his favor. So, If I give the right of a Muslim to another by mistake, then it is really a portion of (Hell) Fire, he has the option to take or give up (before the Day of Resurrection)."