باب : مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The retaliation of the oppressed person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور محمد بن سیریننے کہا اپنا حق برابر لے سکتا ہے۔ پھر انہوں نے ( سورۃ نحل کی ) یہ آیت پڑھی، ” اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں ستایا گیا ہو۔ “
2460.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مظلوم کو مل جائے وہ اپنے مال کی حقدار کے مطابق اس سے لے سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے مسلک کی ترجیح کے لیے امام ابن سیرین ؒ کا قول بھی حسب عادت ذکر کیا ہے۔ ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جب کسی کو قاضی کے ذریعے سے اپنا حق لینا ممکن نہ ہو اور انکار کی صورت میں صاحب حق کے پاس گواہ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو معروف اور دستور کے مطابق ابو سفیان ؓ کے مال سے بچوں کا خرچہ لینے کی اجازت دی۔ (2) دستور کے مطابق ہونے کا تعلق ترازو سے نہیں بلکہ جسے سمجھ دار آدمی کہے کہ اتنا ہے تو وہ لے لینا چاہیے۔ وہ معروف کے مطابق ہو گا۔ اس کی آڑ میں شاہ خرچیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2376
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2460
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2460
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2460
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
اور محمد بن سیریننے کہا اپنا حق برابر لے سکتا ہے۔ پھر انہوں نے ( سورۃ نحل کی ) یہ آیت پڑھی، ” اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں ستایا گیا ہو۔ “
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہندبنت عتبہ ربیعہ ؓ آئی اور عرض کرنے لگی۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ابو سفیان ؓ بڑے کنجوس آدمی ہیں۔ اگر میں ان کے مال میں سے کچھ لے کر اپنے بال بچوں کو کھلاؤں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم بچوں کو رواج کے مطابق کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مظلوم کو مل جائے وہ اپنے مال کی حقدار کے مطابق اس سے لے سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے مسلک کی ترجیح کے لیے امام ابن سیرین ؒ کا قول بھی حسب عادت ذکر کیا ہے۔ ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جب کسی کو قاضی کے ذریعے سے اپنا حق لینا ممکن نہ ہو اور انکار کی صورت میں صاحب حق کے پاس گواہ بھی نہ ہو تو وہ کسی بھی طریقے سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو معروف اور دستور کے مطابق ابو سفیان ؓ کے مال سے بچوں کا خرچہ لینے کی اجازت دی۔ (2) دستور کے مطابق ہونے کا تعلق ترازو سے نہیں بلکہ جسے سمجھ دار آدمی کہے کہ اتنا ہے تو وہ لے لینا چاہیے۔ وہ معروف کے مطابق ہو گا۔ اس کی آڑ میں شاہ خرچیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ترجمۃ الباب:
امام ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں وہ اپنے حق کے برابر لے لے۔ اور بطور دلیل یہ آیت تلاوت کی: "اگر تم سزا دینا چاہو تو اسی قدر سزا دو جتنا انھوں نے تمھیں دی تھی۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ صدیقہ ؓ نے کہ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند ؓ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ابوسفیان (جو ان کے شو ہر ہیں وہ) بخیل ہیں۔ تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے لے کر اپنے بال بچوں کو کھلایا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم دستور کے مطابق ان کے مال سے لے کر کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام شافعی ؒ نے اسی حدیث پر فتوی دیا ہے کہ ظالم کا جو مال بھی مل جائے مظلوم اپنے مال کی مقدار میں اسے لے سکتا ہے، متاخرین احناف کا بھی فتوی یہی ہے۔ (تفہیم البخاری،پ: 9، ص:124)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Hind bint 'Utba ( Abu Sufyan (RA) 's wife) came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Abu Sufyan (RA) is a miser. Is there any harm if I spend something from his property for our children?" He said, there is no harm for you if you feed them from it justly and reasonably (with no extravagance)."