باب : اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: Looking or not looking upon other houses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2467.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: ’’ کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔‘‘
تشریح:
اس عنوان سے مقصود بالا خانے بنانے کا جواز ثابت کرنا ہے۔ بعض لوگ اسے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے پڑوسیوں کے احوال و عیوب پر اطلاع ہوتی ہے۔ لیکن اس کا جواز مشروط ہے کہ پڑوسیوں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ امام بخاری ؒ نے اس سے جواز ثابت کیا ہے بشرطیکہ کسی پردہ دار پر نظر نہ پڑے اور نہ ان کی بے پردگی ہی ہو۔ اگر دوسروں کے مکان میں جھانکنے کی گنجائش ہو یا اڑوس پڑوس والے تکلیف محسوس کریں تو بالاخانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2383
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2467
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2467
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2467
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھے اس پر اس سےجھانکا تو فرمایا: ’’ کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھتے ہو؟تمھارے گھروں پر فتنے برس رہے ہیں جس طرح بارش برستی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس عنوان سے مقصود بالا خانے بنانے کا جواز ثابت کرنا ہے۔ بعض لوگ اسے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے پڑوسیوں کے احوال و عیوب پر اطلاع ہوتی ہے۔ لیکن اس کا جواز مشروط ہے کہ پڑوسیوں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ امام بخاری ؒ نے اس سے جواز ثابت کیا ہے بشرطیکہ کسی پردہ دار پر نظر نہ پڑے اور نہ ان کی بے پردگی ہی ہو۔ اگر دوسروں کے مکان میں جھانکنے کی گنجائش ہو یا اڑوس پڑوس والے تکلیف محسوس کریں تو بالاخانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے اسامہ بن زید ؓ نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ پھر فرمایا، کیا تم لو گ بھی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے۔
حدیث حاشیہ:
نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے اسی سے ترجمہ باب نکلا بشرطیکہ محلے والوں کی بے پردگی نہ ہو۔ اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ مدینہ میں بڑے بڑے فتنے اور فساد ہونے والے ہیں۔ جو بعد کے آنے والے زمانوں میں خصوصا عہد یزید میں رونما ہوئے کہ مدینہ خراب اور برباد ہوا۔ مدینہ کے بہت لوگ مارے گئے، کئی دنوں تک حرم نبوی میں نماز بند رہی۔ پھر اللہ کا فضل ہوا کہ وہ دور ختم ہوا۔ خاص طو رپر آج کل عہد سعودی میں مدینہ منورہ امن و امان کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ ہر ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں۔ مدینہ تجارت اور روزگاروں کی منڈی بنتا جارہا ہے۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے، آمین۔ اور مدینہ منورہ کو مزید در مزید ترقی اور رونق عطا کرے۔ راقم الحروف نے اپنی عمر عزیز کے آخر حصہ1390ھ میں مدینہ شریف کو جس ترقی اور رونق پرپایا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کا یہ شہر ایک دفعہ اور دکھلائے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA): Once the Prophet (ﷺ) stood at the top of one of the castles (or higher buildings) of Madinah and said, "Do you see what I see? No doubt I am seeing the spots of afflictions amongst your houses as numerous as the spots where rain-drops fall (during a heavy rain). (See Hadith No. 102)