باب : مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دورازے پر اونٹ باندھ دینا
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: Whoever tied his camel at the gate of the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2470.
ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: ’’قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔‘‘
تشریح:
(1) مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا، اسی کو بلاط کہتے تھے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ فرش ہو جو مسجد کے سامنے پتھروں یا پکی اینٹوں سے بنایا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد کے دروازے یا اس کے متصل بازار میں کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اونٹ یا کوئی جانور باندھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ کسی کا نقصان کر دے تو مالک پر تاوان نہیں ہو گا، اگر کسی نے عادت بنا لی ہے تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہو گا۔ (2) اگرچہ اس حدیث میں دروازے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے دروازے کو اسی پر قیاس کیا ہے یا حافظ ابن حجر ؒ کے کہنے کے مطابق امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے مسجد کے دروازے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:145/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2386
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2470
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2470
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2470
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
ابو المتوکل کہتے ہیں۔ میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: نبی ﷺ مسجد میں تشریف فر تھے اس لیے میں بھی مسجد میں چلا گیا اور اپنے اونٹ کو (مسجد کے سامنے)بچھے ہوئے پتھروں کے کنارے باندھ دیا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ رہا آپ کا اونٹ آپ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے پاس گھومنے لگے پھر فرمایا: ’’قیمت اور اونٹ دونوں تمھارے ہوئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا، اسی کو بلاط کہتے تھے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ فرش ہو جو مسجد کے سامنے پتھروں یا پکی اینٹوں سے بنایا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد کے دروازے یا اس کے متصل بازار میں کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر اونٹ یا کوئی جانور باندھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ کسی کا نقصان کر دے تو مالک پر تاوان نہیں ہو گا، اگر کسی نے عادت بنا لی ہے تو وہ نقصان کا ذمہ دار ہو گا۔ (2) اگرچہ اس حدیث میں دروازے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے دروازے کو اسی پر قیاس کیا ہے یا حافظ ابن حجر ؒ کے کہنے کے مطابق امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے مسجد کے دروازے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري:145/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعقیل نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں جابر بن عبداللہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ ﷺ سے میں نے عرض کیا کہ حضور ! آپ ﷺ کا اونٹ حاضر ہے۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش تھا۔ اسی کو بلاط کہتے تھے۔ اسی جگہ اونٹ باندھنا مذکو رہے اور دورازے کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ حافظ نے کہا اس حدیث کے دوسرے طریق میں مسجد کے دوازے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): The Prophet (ﷺ) entered the Mosque, and I too went there after tying the camel at the pavement of the Mosque. I said (to the Prophet (ﷺ) ), "This is your camel." He came out and started examining the camel and said, "Both the camel and its price are for you."