باب : کھانے اور سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: About (sharing) meals and the Nahd and Urud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
2484.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نے کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کا سامان خورو نوش ختم ہو گیا اور وہ محتاج ہو گئے تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ان لوگوں سے حضرت عمر ؓ ملے تو انھوں نے ان سے ماجرا بیان کیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اونٹوں کے بعد تمھاری زندگی کا انحصار کس پر ہو گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اونٹ ذبح کرنے کے بعد ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟آپ نے فرمایا: ’’لوگوں میں اعلان کرو کہ وہ اپنا اپنا کھانے پینے کا بقیہ سامان لے کرمیرے پاس حاضر ہوں۔‘‘ پھر چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا گیا اور تمام سامان اس پر ڈال دیا گیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے تمام لوگوں کو برتنوں سمیت بلایا۔ چنانچہ لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے خوب بھر بھر کر لینا شروع کیا۔ جب سب لوگ فارغ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے بچے ہوئے سفر خرچ کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، تو لوگوں نے زیادہ اور کم کے فرق کے بغیر اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا، حالانکہ جمع شدہ خوراک میں کمی بیشی تھی، پھر انہوں نے یوں ہی اندازے سے اپنا اپنا سفر خرچ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ماپ تول کر تقسیم نہیں کیا۔ امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اہم ترین معجزے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر فرمائی۔ سفر خرچ پہلے اس قدر کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے، پھر رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے سے اس میں اتنی برکت ہوئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا۔ اسی برکت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اظہار فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ کے اس برمحل اظہار سے لوگوں کے عقیدے میں پختگی اور آپ کے متعلق حسن ظن کو تقویت ملی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2400
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2484
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2484
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2484
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
نهد یہ ہے کہ دوران سفر میں یا جنگ کے موقع پر جس کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ جمع کر لیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جاتا۔ یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کسی کا حصہ کم ہو گا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا، اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے، تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہو گا۔ عام حالات میں طعام میں کمی بیشی اور ادھار منع ہے لیکن موجودہ صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں کمی بیشی یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پر پایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاً تقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہو جائے۔ کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے اور آئندہ بھی بیان ہو گا۔
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نے کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کا سامان خورو نوش ختم ہو گیا اور وہ محتاج ہو گئے تو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ان لوگوں سے حضرت عمر ؓ ملے تو انھوں نے ان سے ماجرا بیان کیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اونٹوں کے بعد تمھاری زندگی کا انحصار کس پر ہو گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اونٹ ذبح کرنے کے بعد ان کی زندگی کیسے گزرے گی؟آپ نے فرمایا: ’’لوگوں میں اعلان کرو کہ وہ اپنا اپنا کھانے پینے کا بقیہ سامان لے کرمیرے پاس حاضر ہوں۔‘‘ پھر چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا گیا اور تمام سامان اس پر ڈال دیا گیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے تمام لوگوں کو برتنوں سمیت بلایا۔ چنانچہ لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے خوب بھر بھر کر لینا شروع کیا۔ جب سب لوگ فارغ ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، نیز گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے بچے ہوئے سفر خرچ کو ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، تو لوگوں نے زیادہ اور کم کے فرق کے بغیر اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا، حالانکہ جمع شدہ خوراک میں کمی بیشی تھی، پھر انہوں نے یوں ہی اندازے سے اپنا اپنا سفر خرچ لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ماپ تول کر تقسیم نہیں کیا۔ امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اہم ترین معجزے کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر فرمائی۔ سفر خرچ پہلے اس قدر کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے، پھر رسول اللہ ﷺ کے دعا کرنے سے اس میں اتنی برکت ہوئی کہ لوگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا۔ اسی برکت کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اظہار فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ کے اس برمحل اظہار سے لوگوں کے عقیدے میں پختگی اور آپ کے متعلق حسن ظن کو تقویت ملی۔
ترجمۃ الباب:
نیز ماپ تول کردی جانے والی اشیاء کیسے تقسیم کی جائیں؟ اندازے سے یا مٹھی مٹھی بھر کے!کیونکہ مسلمان زاد سفر کے متعلق کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کسی نے کچھ اس چیز سے کھالیا۔ کچھ اس سے کھالیا۔ اوراسی طرح سونے چاندی کا باہمی تبادلہ اندازے سے کرنے اور دودو کھجوریں ملا کر کھانے میں بھی (وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے)فائدہ:نھد یہ ہے کہ دوران سفر یا جنگ کے موقع پر سب کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ پر جمع کرلیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جا تا یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے اس طرح کسی کا حصہ کم ہوگا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر شریک ہوتے ہیں ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا۔ اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہوگا۔ عام حالات میں طعام میں تفاضل اور ادھار منع ہے لیکن موجود صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں تفاضل یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پرپایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاتقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہوجائے، کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ (غزوہ ہوازن میں) لوگوں کے توشے ختم ہو گئے اور فقر و محتاجی آگئی، تو لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجاازت لینے (تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں) آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ راستے میں حضرت عمر ؓ کی ملاقات ان سے ہو گئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلا ع دی۔ عمر ؓ نے کہا اونٹوں کو کاٹ ڈالو گے تو پھر تم کیسے زندہ رہو گے۔ چنانچہ آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا، یا رسول اللہ ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کرلیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا، تمام لوگوں میں اعلان کر دو کہ ان کے پا س جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آجائیں۔ اس کے لیے ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا گیا۔ اور لوگوں نے توشے اسی دسترخوان پر لا کررکھ دئیے۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ اٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ اب آپ ﷺ نے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا ا ور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ایک اہم ترین معجزہ نبوی کا ذکر ہے کہ اللہ نے اپنی قدرت کی ایک عظیم نشانی اپنے پیغمبر ﷺ کے ہاتھ پر ظاہر کی۔ یا توہ وہ توشہ اتنا کم تھا کہ لوگ اپنی سواریاں کاٹنے پر آمادہ ہو گئے یا وہ اس قدر بڑھ گیا کہ فراغت سے ہر ایک نے اپنی خواہش کے موافق بھر لیا۔ اس قسم کے معجزات آنحضرت ﷺ سے کئی بار صادر ہوئے ہیں۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے سب کے توشے اکٹھا کرنے کا حکم دیا، پھر ہر ایک نے یوں ہی اندازے سے لے لیا، آپ نے تول ماپ کر اس کو تقسیم نہیں کیا۔ حدیث اور باب کی مطابقت کے سلسلہ میں شارحین بخاری لکھتے ہیں : و مطابقته للترجمة تؤخذ من قوله فیاتون بفضل أزوادهم و من قوله فدعا و برك علیه فإن جمع أزوادهم و هو في معنی النهد و دعاءالنبي صلی اللہ علیه وسلم بالبرکة۔ (عینی) یعنی حدیث اور باب میں مطابقت لفظ فیاتون الخ سے ہے کہ ایسے مواقع پر ان سب نے اپنے اپنے توشے لا کر جمع کر دیئے اور اس قول سے کہ آنحضرت ﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی۔ یہاں ان کے توشے جمع کرنا مذکورہے اور وہ نہد کے معنی میں ہے یعنی اپنے اپنے حصے برابر برابر لا کر جمع کر دینا۔ اور ا س میں آنحضرت ﷺ کا برکت کے لیے دعا فرمانا۔ لفظ نہد یا نہد آگے بڑھنا، ”نمودار ہونا، مقابل ہونا“ ظاہر ہونا، بڑا کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی سے لفظ تناہد ہے۔ جس کے معنی سفر کے سب رفیقوں کا ایک معین روپیہ یا راشن توشہ جمع کرنا کہ اس سے سفر کی خوردنی ضروریات کو مساوی طور پر پورا کیا جاے یہاں ایسا ہی واقعہ مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama (RA): Once the journey food diminished and the people were reduced to poverty. They went to the Prophet (ﷺ) and asked his permission to slaughter their camels, and he agreed. 'Umar met them and they told him about it, and he said, "How would you survive after slaughtering your camels?" Then he went to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! How would they survive after slaughtering their camels?" Allah's Apostle (ﷺ) ordered 'Umar, "Call upon the people to bring what has remained of their food." A leather sheet was spread and al I the journey food was collected and heaped over it. Allah's Apostle (ﷺ) stood up and invoked Allah to bless it, and then directed all the people to come with their utensils, and they started taking from it till all of them got what was sufficient for them. Allah's Apostle (ﷺ) then said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and I am His Apostle. "