باب : جو مال دو ساجھیوں کے ساجھے کا ہو وہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کرلیں
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: Partners possessing joint property have to pay its Zakat equally)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2487.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو صدقے کے فرائض کے متعلق ایک تحریر دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو مال دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو وہ صدقے میں ایک دوسرے سے برابری کرلیں۔‘‘
تشریح:
زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ شراکت میں جب دو شخص اپنا اصل مال ملا لیں اور نفع ان کے درمیان مشترک ہو تو مشترک مال سے جس نے زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بکریوں کے شرکاء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کریں، یعنی ریوڑ میں اگر برابر برابر کا حصہ ہے تو دونوں فریق آدھا آدھا ذمہ لیں گے اور اگر کسی فریق کا ثلث ہے تو اسی حساب سے صدقہ اس کے ذمے ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2403
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2487
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2487
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2487
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو صدقے کے فرائض کے متعلق ایک تحریر دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو مال دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو وہ صدقے میں ایک دوسرے سے برابری کرلیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ شراکت میں جب دو شخص اپنا اصل مال ملا لیں اور نفع ان کے درمیان مشترک ہو تو مشترک مال سے جس نے زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بکریوں کے شرکاء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کریں، یعنی ریوڑ میں اگر برابر برابر کا حصہ ہے تو دونوں فریق آدھا آدھا ذمہ لیں گے اور اگر کسی فریق کا ثلث ہے تو اسی حساب سے صدقہ اس کے ذمے ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا، ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے ان کے لیے فرض زکوٰۃ کا بیان تحریر کیا تھا جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر کی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جب کسی مال میں دو آدمی ساجھی ہوں تووہ زکوٰۃ میں ایک دوسرے سے برابر برابر مجرا کرلیں۔
حدیث حاشیہ:
جب زکوٰۃ کا مال دو یا تین ساتھیوں میں مشترک ہو۔ یعنی سب کا ساجھا ہواور زکوٰۃ کا تحصیل دار ایک ساجھی سے کل زکوٰۃ وصول کرلے تو وہ دوسرے ساجھیوں کے حصے کے موافق ان سے مجرا لے اور زکوٰۃ کے اوپر دوسرے خرچوں کا بھی قیاس ہو سکے گا۔ پس اس طرح سے اس حدیث کو شرکت سے تعلق ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): that Abu Bakr (RA) As-Siddiq wrote to him the law of Zakat which was made obligatory by Allah's Apostle. He wrote: 'Partners possessing joint property (sheep) have to pay its Zakat equally.