Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: The sharing of food, etc)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور منقول ہے کہ ایک شخص نے کوئی چیز چکائی، دوسرے نے اس کو آنکھ سے اشارہ کیا، تب اس نے مول لے لیا، اس سے حضرت عمرؓ نے یہ سمجھ لیا کہ وہ شریک ہے۔
2501.
حضرت عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی تھی۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت حمید ؓ انھیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! اس سے بیعت لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی یہ چھوٹا ہے۔‘‘ البتہ آپ نے ان کے سرپر دست شفقت پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ زہرہ بن معبد کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام انھیں لے کر بازار جاتے اور غلہ خریدار کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ ان سے ملاقات کرتے تو کہتے کہ ہمیں بھی اس سودے میں شریک کر لو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آپ کے لیے برکت کی دعا ہے۔ وہ ان کو شریک کرلیتے۔ اکثر اوقات پورا پورا اونٹ حصے میں آتا جو غلے سے لدا ہوتا جس کو وہ اپنے گھر بھیج دیتے تھے۔
تشریح:
(1) مالکی حضرات کا موقف ہے کہ غلے اور اناج میں شراکت نہیں ہو سکتی۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مملوکہ چیز میں شراکت ہو سکتی ہے۔ شراکت کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ نصف پر ہو بلکہ یہ شرکاء کی رضامندی پر موقوف ہے، نصف پر، ایک تہائی بلکہ ایک چوتھائی پر بھی ہو سکتی ہے۔ (2) عنوان سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اور ابن زبیر ؓ حضرت ابن ہشام ؓ سے درخواست کرتے کہ ہمیں بھی اپنے خرید کردہ غلے میں شریک کر لو تو وہ ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں غلے میں شریک کر لیتے۔ کسی سے ان کی مخالفت منقول نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2416
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2501
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2501
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2501
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو امام سعید بن منصور نے اپنی جامع میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:5/168)
اور منقول ہے کہ ایک شخص نے کوئی چیز چکائی، دوسرے نے اس کو آنکھ سے اشارہ کیا، تب اس نے مول لے لیا، اس سے حضرت عمرؓ نے یہ سمجھ لیا کہ وہ شریک ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی تھی۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت حمید ؓ انھیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! اس سے بیعت لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی یہ چھوٹا ہے۔‘‘ البتہ آپ نے ان کے سرپر دست شفقت پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ زہرہ بن معبد کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام انھیں لے کر بازار جاتے اور غلہ خریدار کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ ان سے ملاقات کرتے تو کہتے کہ ہمیں بھی اس سودے میں شریک کر لو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آپ کے لیے برکت کی دعا ہے۔ وہ ان کو شریک کرلیتے۔ اکثر اوقات پورا پورا اونٹ حصے میں آتا جو غلے سے لدا ہوتا جس کو وہ اپنے گھر بھیج دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مالکی حضرات کا موقف ہے کہ غلے اور اناج میں شراکت نہیں ہو سکتی۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مملوکہ چیز میں شراکت ہو سکتی ہے۔ شراکت کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ نصف پر ہو بلکہ یہ شرکاء کی رضامندی پر موقوف ہے، نصف پر، ایک تہائی بلکہ ایک چوتھائی پر بھی ہو سکتی ہے۔ (2) عنوان سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اور ابن زبیر ؓ حضرت ابن ہشام ؓ سے درخواست کرتے کہ ہمیں بھی اپنے خرید کردہ غلے میں شریک کر لو تو وہ ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں غلے میں شریک کر لیتے۔ کسی سے ان کی مخالفت منقول نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
منقول ہے کہ ایک شخص نے کوئی چیز خریدنے کے لیے کچھ مول بھاؤ کیا تو دوسرے شخص نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس اشارے سے سمجھ لیا کہ اس میں ا س کی شراکت ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں زہرہ بن معبد نے، انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام ؓ نے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پایا تھا۔ ان کی والدہ زینب بنت حمید ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بیعت لے لیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے۔ پھر آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام ؓ انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے۔ وہاں وہ غلہ خریدتے۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر ؓ ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ کیوں کہ آپ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کرلیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ (مع غلہ) نفع میں پیدا کرلیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے۔
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ کبھی ایک اونٹ کے لادنے کے موافق اناج پیدا کرتے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ہم کو بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ طعام سے کھانے کے غلہ جات گندم، چاول وغیرہ مراد ہیں۔ شرکت میں ان کا کاروبار کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث ہٰذا میں عبداللہ بن ہشام ایک صحابی کا ذکر ہے جن کے لیے آنحضرت ﷺ نے بچپن میں دعا فرمائی تھی اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے اللہ نے ان کو بہت کچھ نوازا تھا۔ ان کے دادا جب غلہ وغیرہ خریدنے بازار جاتے تو ان کو ساتھ لے لیتے تاکہ حضور ﷺ کی دعاؤں کی برکت شامل حال رہے۔ بعض دفعہ راستے میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر مل جاتے تو وہ بھی درخواست کرتے کہ ہم کو بھی اس تجارت میں شریک کرلیجئے تاکہ دعائے نبوی ﷺ کی برکتوں سے ہم بھی فائدہ حاصل کریں۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ یہ سب بہت کچھ نفع کما کر واپس لوٹتے۔ اس حدیث پر حافظ صاحب فرماتے ہیں: وفي الحدیث مسح رأس الصغیر و ترك مبایعة من لم یبلغ والدخول في السوق لطلب المعاش و طلب البرکة حیث کانت والرد علی من زعم أن السعة من الحلال مذمومة و توقر دواعي الصحابة علی إحضار أولادھم عندالنبي صلی اللہ علیه وسلم لالتماس برکته و علم من أعلام نبوته صلی اللہ علیه وسلم لإجابة دعائه في عبداللہ بن هشام۔یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ چھوٹے بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرنا سنت نبوی ہے اور نابالغ بچے سے بیعت نہ لینا بھی ثابت ہوا اور طلب معاش کے لیے بازار جانے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی اور برکت طلب کرنا بھی ثابت ہوا وہ جہاں سے بھی حاصل ہو اور ان لوگوں کی تردید بھی ہوئی جو رزق حلال کی کوشش کو مذموم جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بیشتر صحابہ کرام برکت حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد کو آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا کرتے تھے تاکہ آپ کی دعائیں ان بچوں کے شامل حال ہوں اور حضرت عبداللہ بن ہشام کے حق میں دعائے نبوی کی جو برکات حاصل ہوئیں یہ سب آنحضرت ﷺ کی صداقت کی نشانیوں میں سے اہم نشانیاں ہیں۔ ایسا ہی واقعہ عروہ بارقی ؓ کا ہے جو بازار میں جاتے اور کبھی تو چالیس چالیس ہزار کا نفع کما کر بازار سے واپس لوٹتے جو سب کچھ نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کی برکت تھی۔ آپ نے ایک دفعہ ان کو ایک دینار دے کر قربانی کا جانور خریدنے بھیجا تھا اور یہ اس ایک دینار کی دو قربانیاں خرید کر لائے اور راستے میں ہی ان میں سے ایک کو فروخت کرکے دینار واپس حاصل کرلیا۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں قربانی کا جانور پیش کیااور نفع میں حاصل ہونے والا دینار بھی اور ساتھ میں تفصیلی واقعہ سنایا جسے سن کر آنحضرت ﷺ بے حد خوش ہوئے اور ان کے کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومطابقة الحدیث للترجمة في قوله أشرکنا لکونهماطلبا منه الاشتراك في الطعام الذي اشتراہ فأجابهما إلی ذٰلك وهم من الصحابة و لم ینقل عن غیرهم مایخالف ذالك فیکون حجة والجمهور علی صحة الشرکة في کل مایتملك۔(قسطلانی)یعنی حدیث کی باب میں مطابقت لفظ اشرکنا سے ہے۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں نے ان سے اس خرید کردہ غلہ میں شرکت کا سوال کیا اور انہوں نے ہردو کی اس درخواست کو قبول کیا۔ وہ سب اصحاب نبوی تھے اور کسی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں ہوئی۔ پس یہ حجت ہے اور جمہور ہر اس چیز میں شرکت کے جواز کے قائل ہیں جو چیز ملکیت میں آسکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Hisham (RA): that his mother Zainab bint Humaid took him to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Take the pledge of allegiance from him." But he said, "He is still too young for the pledge," and passed his hand on his (i.e. 'Abdullah's) head and invoked for Allah's blessing for him. Zuhra bin Ma'bad stated that he used to go with his grandfather, 'Abdullah bin Hisham, to the market to buy foodstuff. Ibn 'Umar (RA) and Ibn Az-Zubair would meet him and say to him, "Be our partner, as the Prophet (ﷺ) invoked Allah to bless you." So, he would be their partner, and very often he would win a camel's load and send it home.