باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ ” غلام تمہارے بھائی ہیں پس ان کو بھی تم اسی میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو “
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: "Slaves are your brothers, so feed them with the like of what you eat.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیم وں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ ( اچھا سلوک کرو ) بی شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو “۔ ( آیت میں ) ذی القربیٰ سے مراد رشتہ دار ہیں، جنب سے غیر یعنی اجنبی اور الجار الجنب سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔تشریح : حضرت امام نے مقصد باب ثابت فرمانے کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس میں ترجمۃ الباب لفظ وما ملکت ایمانکم سے نکلتا ہے جس سے لونڈی غلام مراد ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرے قرابت داروں اور یتامیٰ و مساکین کے ساتھ ضروری ہے۔ عہد رسالت وہ دور تھا جس میں انسانوں کو لونڈی غلام بناکر جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور دنیا کے کسی قانون اور مذہب میں اس کی روک ٹوک نہ تھی۔ ان حالات میں پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ و سلام نے اپنی حسن تدبیر کے ساتھ اس رسم کو ختم کرنے کا طریقہ اپنایا اور اس بارے میں ایسی پاکیزہ ہدایات پیش کیں کہ عام مسلمان اپنے غلاموں کو انسانیت کا درجہ دیتے۔ لہٰذا ان کو اپنے بھائی بند سمجھنے لگ گئے۔ ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک ایمان کا خاصہ بتلایاگیا جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ یہ رسم بدانسانی دنیا سے تقریباً ختم ہوگئی۔ یہ اسی پاکیزہ تعلیم کا اثر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اب غلامی کی اور بدترین صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔
2545.
حضرت معرور بن سوید سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابوذر غفاری ؓ کودیکھا کہ وہ ایک عمدہ پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھے اور ان کے غلام نے بھی اسی طرح کی پوشاک پہنی ہوئی تھی۔ ہم نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں میری شکایت کی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’ کیاتو نے اسے اس کی ماں کی وجہ سے عار دلائی ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے، اسلیے جس کا بھائی اس کے ماتحت ہوتو جو وہ خود کھاتاہے وہی اسے کھلائے اور جو خود پہنتا ہے وہی اسے پہنائے اور انھیں ایسے امور بجالانے کی تکلیف نہ دو جوان کے لیے قابل برداشت ہوں۔ اگر تم نے ان پر اس طرح کی مشقت ڈالی ہو جوان پر بھاری ہوتو اس میں ان کی مدد کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا: سیاہ فام عورت کے بیٹے! اس پر رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:’’ابو ذر! تمہارے اندر اب بھی جاہلیت کی عادت باقی ہے۔‘‘ بہر حال آقا پر علاقے کے اعتبار اور لوگوں کے طور طریقے کے لحاظ سے غلام کا خرچہ ضروری ہے۔ اگر مالک بخل کی وجہ سے معمولی کھانا یا معمولی لباس پہنتا ہو تو غلام سے اس طرح کا بخل نہ کرے اور اسے اچھا لباس اور اچھا کھانا دے۔ اگر غلام اپنی مرضی سے معمولی کھانا اور معمولی اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔2۔ خادم، ملازم، نوکر، مزدور اور ماتحت عملے کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔3۔ اس حدیث سے مخالفین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کی وجہ سے طعن کرتے ہیں، حالانکہ اسلام ہی نےرسم غلامی کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2457
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2545
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2545
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2545
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے الفاظ کو عنوان قرار دیا ہے۔ دور جاہلیت میں انسانوں کو لونڈی غلام بنا کر حیوانوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ دنیا کے کسی قانون یا مذہب میں اس کی روک ٹوک نہیں تھی، ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حسن تدبیر سے ان رسومات کا خاتمہ کیا اور ان کے متعلق ایسی ہدایات دیں کہ عام مسلمان اپنے غلاموں کو انسانیت کا درجہ دینے لگے اور انہیں اپنے بھائی بند خیال کرنے لگے۔ اس آیت کریمہ میں لونڈی غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنا اتنا ہی ضروری بتایا گیا ہے جتنا دوسرے رشتے داروں، یتیموں اور مساکین سے ضروری ہے۔ بالآخر لونڈی غلام اب ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں عملی طور پر اس کا وجود ختم ہو چکا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیم وں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ ( اچھا سلوک کرو ) بی شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو “۔ ( آیت میں ) ذی القربیٰ سے مراد رشتہ دار ہیں، جنب سے غیر یعنی اجنبی اور الجار الجنب سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔تشریح : حضرت امام نے مقصد باب ثابت فرمانے کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس میں ترجمۃ الباب لفظ وما ملکت ایمانکم سے نکلتا ہے جس سے لونڈی غلام مراد ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرے قرابت داروں اور یتامیٰ و مساکین کے ساتھ ضروری ہے۔ عہد رسالت وہ دور تھا جس میں انسانوں کو لونڈی غلام بناکر جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور دنیا کے کسی قانون اور مذہب میں اس کی روک ٹوک نہ تھی۔ ان حالات میں پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ و سلام نے اپنی حسن تدبیر کے ساتھ اس رسم کو ختم کرنے کا طریقہ اپنایا اور اس بارے میں ایسی پاکیزہ ہدایات پیش کیں کہ عام مسلمان اپنے غلاموں کو انسانیت کا درجہ دیتے۔ لہٰذا ان کو اپنے بھائی بند سمجھنے لگ گئے۔ ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک ایمان کا خاصہ بتلایاگیا جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ یہ رسم بدانسانی دنیا سے تقریباً ختم ہوگئی۔ یہ اسی پاکیزہ تعلیم کا اثر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اب غلامی کی اور بدترین صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت معرور بن سوید سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابوذر غفاری ؓ کودیکھا کہ وہ ایک عمدہ پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھے اور ان کے غلام نے بھی اسی طرح کی پوشاک پہنی ہوئی تھی۔ ہم نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں میری شکایت کی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’ کیاتو نے اسے اس کی ماں کی وجہ سے عار دلائی ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے، اسلیے جس کا بھائی اس کے ماتحت ہوتو جو وہ خود کھاتاہے وہی اسے کھلائے اور جو خود پہنتا ہے وہی اسے پہنائے اور انھیں ایسے امور بجالانے کی تکلیف نہ دو جوان کے لیے قابل برداشت ہوں۔ اگر تم نے ان پر اس طرح کی مشقت ڈالی ہو جوان پر بھاری ہوتو اس میں ان کی مدد کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا: سیاہ فام عورت کے بیٹے! اس پر رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:’’ابو ذر! تمہارے اندر اب بھی جاہلیت کی عادت باقی ہے۔‘‘ بہر حال آقا پر علاقے کے اعتبار اور لوگوں کے طور طریقے کے لحاظ سے غلام کا خرچہ ضروری ہے۔ اگر مالک بخل کی وجہ سے معمولی کھانا یا معمولی لباس پہنتا ہو تو غلام سے اس طرح کا بخل نہ کرے اور اسے اچھا لباس اور اچھا کھانا دے۔ اگر غلام اپنی مرضی سے معمولی کھانا اور معمولی اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔2۔ خادم، ملازم، نوکر، مزدور اور ماتحت عملے کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔3۔ اس حدیث سے مخالفین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کی وجہ سے طعن کرتے ہیں، حالانکہ اسلام ہی نےرسم غلامی کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین کے ساتھ خوش اسلوبی کےساتھ پیش آؤ اور اپنے قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں سے۔۔۔ مغرور اور خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔ "ابوعبداللہ (امام بخاری) بیان کرتے ہیں کہ: ذِي الْقُرْبَى سے مراد قریبی رشتہ دار اور وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ سے مراد جنبی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے، بیان کیا، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری ؓ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب (یعنی بلال ؓ سے) سے کچھ گالی گلوچ ہوگئی تھی۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے میری شکایت کی، آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ پھر آپ نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگر چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کردیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
تاکہ وہ آسانی سے اس خدمت کو انجام دے سکیں۔ روایت میں مذکورہ غلام سے حضرت بلال ؓ مراد ہیں۔ بعضوں نے کہا ابوذر ؓ کے بھائیوں میں سے کوئی تھے جیسے مسلم کی روایت میں ہے۔ غلام کو ساتھ کھلانے کا حکم استحباباً ہے۔ حضرت ابوذر ؓ اپنے غلام کو ساتھ ہی کھلاتے اور اپنے ہی جیسا کپڑا پہناتے تھے۔ آیات باب میں ذی القربیٰ سے رشتہ دار مراد ہیں۔ یہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اس کو علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور جنب سے بعضوں نے یہودی اور نصرانی مراد رکھا ہے۔ یہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نکالا۔ اور جار الجنب کی جو تفسیر امام بخاری ؒ نے کی ہے وہ مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ ا س حدیث سے ان معاندین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کاالزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ رسم غلامی کی جڑوں کو اسلام ہی نے کھوکھلا کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Ma'rur bin Suwaid (RA): I saw Abu Dhar Al-Ghifari wearing a cloak, and his slave, too, was wearing a cloak. We asked him about that (i.e. how both were wearing similar cloaks). He replied, "Once I abused a man and he complained of me to the Prophet (ﷺ) . The Prophet (ﷺ) asked me, 'Did you abuse him by slighting his mother?' He added, 'Your slaves are your brethren upon whom Allah has given you authority. So, if one has one's brethren under one's control, one should feed them with the like of what one eats and clothe them with the like of what one wears. You should not overburden them with what they cannot bear, and if you do so, help them (in their hard job)."