باب : اگرکوئی غلام لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: If somebody beats a slave, he should avoid his face)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2559.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اگر کسی کو مار پیٹ کرے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔‘‘
تشریح:
(1) صحیح مسلم کی روایت میں قاتل کی جگہ کی جگہ لفظ ضرب ہے۔ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6652(2612)) اس حدیث میں اگرچہ خادم کو مارنے کی صراحت نہیں مگر امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں یہ روایت بیان کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔ (الأدب المفرد، حدیث:174) (2) مار پیٹ کے دوران چہرے پر مارنے سے بچنا صرف غلام یا خادم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے کیونکہ چہرہ ایک ایسا عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن (تمام خوبصورتیوں) کا مجموعہ ہے۔ اس پر مارنے سے کئی ایک عیوب اور نقائص کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء کو زدوکوب کر لیا جائے۔ سکول کے اساتذہ اور مدارس کے قراء حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2470
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2559
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2559
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2559
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اگر کسی کو مار پیٹ کرے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم کی روایت میں قاتل کی جگہ کی جگہ لفظ ضرب ہے۔ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6652(2612)) اس حدیث میں اگرچہ خادم کو مارنے کی صراحت نہیں مگر امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں یہ روایت بیان کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔ (الأدب المفرد، حدیث:174) (2) مار پیٹ کے دوران چہرے پر مارنے سے بچنا صرف غلام یا خادم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے کیونکہ چہرہ ایک ایسا عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن (تمام خوبصورتیوں) کا مجموعہ ہے۔ اس پر مارنے سے کئی ایک عیوب اور نقائص کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء کو زدوکوب کر لیا جائے۔ سکول کے اساتذہ اور مدارس کے قراء حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن فلاں (ابن سمعان) نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے، نبی کریم ﷺ سے۔ (دوسری سند اور امام بخاری نے کہا) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے (پر مارنے) سے پرہیز کرے۔
حدیث حاشیہ:
مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔ بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔ حضرت امام ؒنے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔ صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے امام مالک ؒ اور امام محمد ؒ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔ کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔
تشریح : اسلم کی روایت میں صاف إذا ضرب هے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔ إذا ضرب خادمه یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔ حافظ ؒنے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منه پر نہ مارنا چاہئے۔ اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا (وحیدی) ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قَالَ النَّوَوِيُّ قَالَ الْعُلَمَاءُ إِنَّمَا نَهَى عَنْ ضَرْبِ الْوَجْهِ لِأَنَّهُ لَطِيفٌ يَجْمَعُ الْمَحَاسِنَ وَأَكْثَرُ مَا يَقَعُ الْإِدْرَاكُ بِأَعْضَائِهِ فَيُخْشَى مِنْ ضَرْبِهِ أَنْ تَبْطُلَ أَوْ تَتَشَوَّهَ كُلُّهَا أَوْ بَعْضُهَا وَالشَّيْنُ فِيهَا فَاحِشٌ لِظُهُورِهَا وَبُرُوزِهَا بَلْ لَا يَسْلَمُ إِذَا ضَرَبَهُ غَالِبًا مِنْ شَيْنٍ اه وَالتَّعْلِيلُ الْمَذْكُورٌ حَسَنٌ لَكِنْ ثَبَتَ عِنْدَ مُسْلِمٍ تَعْلِيلٌ آخَرُ فَإِنَّهُ أَخْرَجَ الْحَدِيثَ الْمَذْكُورَ مِنْ طَرِيقِ أَبِي أَيُّوبَ الْمَرَاغِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَادَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاخْتُلِفَ فِي الضَّمِيرِ عَلَى مَنْ يَعُودُ فَالْأَكْثَرُ عَلَى أَنَّهُ يَعُودُ عَلَى الْمَضْرُوبِ لِمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْأَمْرِ بِإِكْرَامِ وَجْهِهِ وَلَوْلَا أَنَّ الْمُرَادَ التَّعْلِيلُ بِذَلِكَ لَمْ يَكُنْ لِهَذِهِ الْجُمْلَةِ ارْتِبَاطٌ بِمَا قَبْلَهَا وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ أَعَادَ بَعْضُهُمُ الضَّمِيرَ عَلَى اللَّهِ مُتَمَسِّكًا بِمَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِإلی آخرہ۔(فتح الباري)خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاء ہی سے ہوتا ہے۔ پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔ لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔ قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ واللہ أعلم بالصواب۔ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If somebody fights (or beats somebody) then he should avoid the face."