باب : جس نے اپنے لونڈی غلام کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائی اس کا گناہ
)
Sahi-Bukhari:
Makaatib
(Chapter: The sin of one who falsely accuses his slave of illegal sexual intercourse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور(سورۃ النور میں)اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ”تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کر لو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔(کہ وہ وعدہ پورا کر سکیں گے)اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔“روح بن عبادہ نے ابن جریح رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہو جائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کر لوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ(ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ)واجب ہو جائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔(پھر انہیں یاد آیا)اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین(ابن سیرین کے والد)نے انسؓ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔(یہ انس ؓ کے غلام تھے)جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس ؓ نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے(انس ؓ سے)فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کر لے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر ؓہ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی”غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو“۔ چنانچہ انس ؓنے کتابت کا معاملہ کر لیا۔
2560.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ ان سے مکاتبت کے معاملے میں تعاون طلب کرتی تھیں۔ ان کے ذمے پانچ اوقیے چاندی تھی جوانہوں نے مکاتبت کے سلسلے میں پانچ سال میں ادا کرنی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کو حضرت بریرہ ؓ کے آزاد کرانے میں دلچسپی پیدا ہوگئی توانھوں نے اس سے فرمایا: اگر میں تمہاری اقساط یکمشت اداکردوں تو کیا تمہارے آقا تمھیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے، پھر میں تمھیں آزاد کردوں گی اور تیری ولا بھی میرے لیے ہوگی؟ حضرت بریرہ ؓ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں، ان کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، البتہ اس صورت میں قبول کرسکتے ہیں کہ ولا ہمارے پاس رہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید کرآزادکردو، ولا اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا: ’’لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں؟ جوشخص ایسی شرط لگائے جو (جس کی اصل) اللہ کی کتاب میں نہ ہوتو وہ شرط باطل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ شرط ہی زیادہ صحیح اورزیادہ مضبوط ہے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کسی غلام لونڈی کا اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرنا جائز ہے اور وہ اپنا بدل کتابت یکمشت بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو یکمشت ادائیگی کی پیشکش کی تھی اور وہ اسے قسطوں میں بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے قسطوں میں ادائیگی کا معاملہ طے کیا تھا اور یہ اقساط سالانہ، ماہانہ اور ششماہی بھی ہو سکتی ہیں۔ اس میں وسعت ہے۔ (2) قسطوں کو عربی زبان میں نجوم کہتے ہیں جو نجم کی جمع ہے۔ دراصل عرب حضرات حساب نہیں جانتے تھے، اس لیے انہوں نے تاروں کے طلوع پر مالی معاملات کو وابستہ کر رکھا تھا کہ جب فلاں تارہ طلوع ہو گا تو یہ معاملہ یوں ہو گا، اسی وجہ سے قسط کو نجم کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت بریرہ ؓ نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی پر اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ طے کیا تھا جو نو سالوں میں ادا کرنا تھی، چار اوقیے چاندی ادا کرنے کے بعد وہ تعاون لینے کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئیں جیسا کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان کے بدل کتابت کو یکمشت ادا کرنے کی حامی بھر لی لیکن ولا اپنے لیے ہونے کی شرط کی، جب مالکان نے اس کا انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا جس کی تفصیل اس روایت میں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2471
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2560
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2560
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2560
تمہید کتاب
لغوی طور پر مکاتب باب مفاعلہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غلام یا لونڈی ہے جس کا اس کے آقا کے ساتھ مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا تحریری معاہدہ ہو جائے۔ مکاتب (تا کی زیر کے ساتھ) وہ آقا جس کی طرف سے کتابت کا معاملہ کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ مکاتبت کا معاملہ کرتے تھے، اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے مکاتب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور عورتوں میں سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبت کی، پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین سے کتابت کا معاملہ کیا۔ قرآن کریم میں اس بات کی صراحت ہے کہ جب کوئی غلام اپنے آقا سے کتابت کا معاملہ کرنے کی درخواست کرے تو ایسی صورت میں مالک کو درخواست قبول کر لینی چاہیے۔ دراصل اسلام نے اسلامی معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کے وجود کو کم سے کم کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات کیے ہیں اور کئی ایک اصلاحات وضع کر کے اسے ایک مہذب شکل دی ہے:(1) کئی گناہوں کا کفارہ گردن، یعنی غلام آزاد کرنا قرار دیا گیا ہے۔(2) گردن آزاد کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔(3) اگر ملک یمین، یعنی لونڈی سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔(4) اگر کوئی غلام یا لوندی اپنے مالک سے یہ درخواست کرے کہ میں اپنی آزادی کے بدلے اتنی رقم اتنی مدت میں بالاقساط یا یکمشت ادا کروں گا تو مالک کو یہ درخواست نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں بلکہ قرآن حکیم نے حکم دیا ہے کہ مالک اپنے اس مال سے اس غلام کا تعاون کرے جو اللہ نے اسے دے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ) "اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں تو اگر تم ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ کے مال سے جو اس نے تمہیں دیا ہے انہیں بھی دو۔" (النور33:24)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل مکاتبت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ہمیں ترغیب دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں مکاتبت کی اہمیت و افادیت، اس کے فضائل و مناقب اور احکام و مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ مرفوع احادیث پیش کی ہیں جو متصل اسناد سے مروی ہیں، اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: (1) مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان۔ (2) مکاتب کی طرف سے کون سی شرائط جائز ہیں؟ (3) مکاتب کا مدد طلب کرنا اور دوسروں سے سوال کرنا۔ (4) مکاتب اگر راضی ہو تو اسے فروخت کرنا۔ (5) مکاتب اگر کہے کہ مجھے خرید کر آزاد کر دو تو اس کا خریدنا اور آزاد کرنا جائز ہے۔اگرچہ غلامی ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، عملی زندگی میں اس کا وجود ناپید ہو چکا ہے، تاہم مستقبل میں دوبارہ ان حالات کا پایا جانا بعید از مکان نہیں۔ چونکہ یہ ایک علمی امانت ہے جو اسلاف نے ہمیں منتقل کی ہے، اس لیے متعلقہ احادیث اور اس کی مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔
تمہید باب
اگر کسی کا غلام یا لونڈی اپنے آقا سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہے اور اس میں اتنی اہلیت ہو کہ وہ معاملے کو بخوبی پورا کرے گا تو آقا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے یہ معاملہ کر کے اسے آزاد کر دے، بلکہ قرآن کریم نے مالکوں کو مزید کہا کہ وہ اپنے مال سے اس کا تعاون بھی کریں، اسے مال زکاۃ سے بھی کچھ نہ کچھ دیا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں اگرچہ غلامی کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، تاہم ناحق مصائب و آلام میں گرفتار ہونے والے مسلمان مرد عورت آج بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزادی کے لیے ان کا بھرپور تعاون کیا جائے۔ جمہور اہل علم یہاں امر کے صیغے کو استحباب پر محمول کرتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان وجوب کی طرف ہے کیونکہ انہوں نے وجوب ہی کے آثار پیش کیے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی وجوب ہی کی نشاندہی کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن جریج اور عمرو بن دینار کے آثار کو امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لعبد الرزاق:8/372،371)
اور (سورۃ النور میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کر لو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔ (کہ وہ وعدہ پورا کر سکیں گے) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔“ روح بن عبادہ نے ابن جریح رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہو جائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کر لوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ (ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ) واجب ہو جائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ (پھر انہیں یاد آیا) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین (ابن سیرین کے والد) نے انسؓ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ (یہ انس ؓ کے غلام تھے) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس ؓ نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے (انس ؓ سے) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کر لے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر ؓہ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی ”غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو“۔ چنانچہ انس ؓنے کتابت کا معاملہ کر لیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت بریرہ ؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ ان سے مکاتبت کے معاملے میں تعاون طلب کرتی تھیں۔ ان کے ذمے پانچ اوقیے چاندی تھی جوانہوں نے مکاتبت کے سلسلے میں پانچ سال میں ادا کرنی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کو حضرت بریرہ ؓ کے آزاد کرانے میں دلچسپی پیدا ہوگئی توانھوں نے اس سے فرمایا: اگر میں تمہاری اقساط یکمشت اداکردوں تو کیا تمہارے آقا تمھیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے، پھر میں تمھیں آزاد کردوں گی اور تیری ولا بھی میرے لیے ہوگی؟ حضرت بریرہ ؓ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں، ان کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، البتہ اس صورت میں قبول کرسکتے ہیں کہ ولا ہمارے پاس رہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید کرآزادکردو، ولا اسی کے لیے ہوتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا: ’’لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں؟ جوشخص ایسی شرط لگائے جو (جس کی اصل) اللہ کی کتاب میں نہ ہوتو وہ شرط باطل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ شرط ہی زیادہ صحیح اورزیادہ مضبوط ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کسی غلام لونڈی کا اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرنا جائز ہے اور وہ اپنا بدل کتابت یکمشت بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ ؓ کو یکمشت ادائیگی کی پیشکش کی تھی اور وہ اسے قسطوں میں بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے قسطوں میں ادائیگی کا معاملہ طے کیا تھا اور یہ اقساط سالانہ، ماہانہ اور ششماہی بھی ہو سکتی ہیں۔ اس میں وسعت ہے۔ (2) قسطوں کو عربی زبان میں نجوم کہتے ہیں جو نجم کی جمع ہے۔ دراصل عرب حضرات حساب نہیں جانتے تھے، اس لیے انہوں نے تاروں کے طلوع پر مالی معاملات کو وابستہ کر رکھا تھا کہ جب فلاں تارہ طلوع ہو گا تو یہ معاملہ یوں ہو گا، اسی وجہ سے قسط کو نجم کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت بریرہ ؓ نے نو اوقیے چاندی کی ادائیگی پر اپنے آقاؤں سے مکاتبت کا معاملہ طے کیا تھا جو نو سالوں میں ادا کرنا تھی، چار اوقیے چاندی ادا کرنے کے بعد وہ تعاون لینے کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئیں جیسا کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان کے بدل کتابت کو یکمشت ادا کرنے کی حامی بھر لی لیکن ولا اپنے لیے ہونے کی شرط کی، جب مالکان نے اس کا انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا جس کی تفصیل اس روایت میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جو لونڈی غلام تم سے مکاتبت کی درخواست کریں اگر تم ان میں خیروصلاح محسوس کروتو ان سے مکاتبت کا معاملہ کرلو اور(اپنے) اس مال سے تعاون بھی کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دے رکھا ہے۔ "
حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا: اگر مجھے علم ہو کہ غلام کے پاس مال موجود ہے تو کیا مجھے اس سے مکاتبت کا معاملہ کرنا ضروری ہے؟انھوں نے جواب دیا: میں تو اسے ضروری خیال کرتا ہوں۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا: کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے کوئی روایت بھی بیان کرتے ہیں؟تو انھوں نے نہیں میں جواب دیا۔ پھر انھیں یاد آیا تو کہا کہ سیرین نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مکاتبت کی درخواست کی جبکہ وہ اہل ثروت تھے تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست کومسترد کردیا۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے توانھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: تم اس سے مکاتبت کا معاملہ کرو، لیکن وہ نہ مانے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنادرہ مارا اور آپ آیت کریمہ پڑھ رہے تھے: "اگر تم اپنے غلاموں میں خیر وصلاح د یکھو تو ان سے مکاتبت کرلو۔ "چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیرین سے مکاتبت کامعاملہ کرلیا۔
فائدہ: ۔
اگر کسی کاغلام یا لونڈی اپنے آقا سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس میں اتنی اہلیت ہوکہ وہ معاملے کو بخوبی پورا کرے گا تو آقا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے یہ معاملہ کرکے اسے آزاد کرے بلکہ قرآن کریم نے مالکوں کومزید کہا کہ وہ ا پنے مال سے اس کاتعاون بھی کریں، اسے مال زکاۃ سے بھی کچھ نہ کچھ دیاجاسکتا ہے۔ دورحاضر میں اگرچہ غلامی کاسلسلہ ختم ہوچکاہے تاہم ناحق مصائب وآلام میں گرفتار ہونے والے مسلمان مرد عورت آج بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزادی کے لیے ان کا بھرپور تعاون کیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے۔ بریرہ ؓ کو پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ عائشہ ؓ نے کہا، انہیں خود بریرہ ؓ کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہوگئی تھی، کہ یہ بتاؤ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ (چاندی کے یہ پانچ اوق یہ) ادا کردوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے؟ پھر میں تمہیں آزاد کردوں گی اور تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہوجائےگی۔ بریرہ ؓ اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کرسکتے ہیں کہ رشتہ ولاءہمارے ساتھ رہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ ؓ کو آزاد کردے، ولاءتو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس تفصیلی مدلل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ غلام لونڈی اگر اپنے آقاؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں اور ان میں اتنی اہلیت بھی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اس معاملہ کو باحسن طریق پورا کریں گے تو آقاؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ معاملہ کرکے ان کو آزاد کردیں۔ آیت کریمہ ﴿إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا﴾(النور:33)( اگر تم ان میں خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ) میں خیر سے مراد یہ ہے کہ وہ کمائی کے لائق اور ایماندار ہوں، محنت مزدوری کرکے بدل کتابت ادا کردیں، لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے نہ پھریں۔ ﴿وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ﴾(النور:33)( اور اپنے مال میں سے جو اللہ نے تم کو دیا ہے ان کی کچھ مدد بھی کرو ) سے مراد یہ کہ اپنے پاس ان کو بطور امداد کچھ دو، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں یا بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردو۔ روح کے اثر کو اسماعیل قاضی نے احکام القرآن میں اور عبدالرزاق اور شافعی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عطاءنے واجب قرار دیا کہ بشرط مذکور آقا غلام کی مکاتبت قبول کرلے۔ امام ابن حزم اور ظاہریہ کے نزدیک اگر غلام مکاتبت کا خواہاں ہو تو مالک پر مکاتبت کردینا واجب ہے۔ کیوں کہ قرآن میں ﴿فکاتبوهم﴾ امر کے لیے ہے جو وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مگر جمہور یہاں امر کو بطور استحباب قرار دیتے ہیں۔ حضرت عطاءنے جب اپنا خیال ظاہر کیا تو عمروبن دینار نے ان سے سوال کیا کہ وجوب کا قول آپ نے کسی صحابی سے سنا ہے یا اپنے قیاس اور رائے سے ایسا کہتے ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن دینار نے عطاءسے یہ پوچھا لیکن حافظ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابن جریج نے عطاءسے یہ پوچھا۔ جیسے عبدالرزاق اور شافعی کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس صورت میں قال عمروبن دینار جملہ معترضہ ہوگا۔ اور نسفی کی روایت میں یوں ہے وقاله عمرو بن دیناریعنی عمرو بن دینا بھی وجوب کے قائل ہوئے ہیں اور ترجمہ یوں گا ’’اور عمروبن دینا نے بھی اس کو واجب کہا ہے۔‘‘ ابن جریج نے کہا میں نے عطاءسے پوچھا کیا یہ تم کسی سے روایت کرتے ہو؟ آگے حضرت عمر ؓ کا قول مذکور ہے اور عمل بھی ظاہر ہے کہ وہ بشرط مذکور مکاتبت کو واجب کہتے تھے۔ جیسے ابن حزم اور ظاہریہ کا قول ہے۔ حضرت بریرہ ؓ پر پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال میں ادا کرنی مقرر ہوئی تھی۔ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ بعض علماءنے کہا کہ آیت کریمہ ﴿وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ﴾(النور:33) سے مکاتب کو مال زکوٰۃ میں سے بھی امداد دی جاسکتی ہے۔ دور حاضرہ میں ناحق مصائب قید میں گرفتار ہوجانے والے مسلمان مرد عورت بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزاد ی کے لیے ان طریقوں سے مدد دی جائے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان تھا۔ رسول کریم ﷺ کے خادم خاص تھے۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال کی تھی۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں بصرہ میں قیام کیا۔ وہاں لوگوں کو91ھ تک علوم دین سکھاتے رہے۔ عمر سو سال کے لگ بھگ پائی۔ ان کی اولاد کا بھی شمار سو کے قریب ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (ra) that Barira came to seek her help writing of emancipation and she had to pay five Uqiya (of gold) by five yearly installments. 'Aishah said to her, "Do you think that if I pay the whole sum at once, your masters will sell you to me, and I will free you and your Wala' will be for me." Barira went to her masters and told them about that offer. They said that they would not agree to it unless her Wala' would be for them. 'Aishah further said, "I went to Allah's Messenger (ﷺ) and told him about it." Allah Messenger (ﷺ) said to her, "Buy Barira and manumit her and the Wala' will be for the liberator." Allah's Messenger (ﷺ) then got up and said, "What about those people who stipulate conditions that are not present in Allah's Laws? If anybody stipulates a condition which is not in Allah's Laws, then what he stipulates is invalid. Allah's Condition (Laws) are the truth and are more solid."