باب : خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو کچھ ہبہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Giving gifts by a husband to his wife, and by a wife to her husband)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابراہیم نخعی نے کہا کہ جائز ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ دونوں اپنا ہبہ واپس نہیں لے سکتے۔ نبی کریمﷺ نے مرض کے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزارنے کی اپنی دوسری بیویوں سے اجازت مانگی تھی ( اور ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری ہبہ کردی تھی ) اور آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ اپنا ہبہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی قے چاٹتا ہے۔ زہری نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنا کچھ مہر یا سارا مہر مجھے ہبہ کردے ( اور اس نے کردیا ) اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیوی نے ( اپنے مہر کا ہبہ ) واپس مانگا تو زہری نے کہا کہ اگر شوہر نے محض دھوکہ کے لیے ایسا کیا تھا تو اسے مہر واپس کرنا ہوگا۔ لیکن اگر بیوی نے اپنی خوشی سے مہر ہبہ کیا، اور شوہر نے بھی کسی قسم کا دھوکہ اس سلسلے میں اسے نہیں دیا، تو یہ صورت جائز ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” اگر تمہاری بیویاں دل سے اور خوش ہوکر تمہیں اپنے مہر کا کچھ حصہ دے دیں ( تو لے سکتے ہو )۔ یعنی اگر خاوند بیوی کو ہبہ کرے یا بیوی خاوند کو دونوں صورتوں میں ہبہ نافذ ہوگا اور رجوع جائز نہیں۔ ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز ان ہر دو کے اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ دوسری ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا۔
2588.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھو نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور تکلیف سخت ہوگئی تو آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اپنی بیماری کے ایام میرے گھر بسر کرنے کی اجازت طلب کی تو تمام ازواج نے بخوشی اجازت دے دی۔ آپ دو آدمیوں کے درمیان اس طرح نکلے کہ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کھینچتے تھے۔ آپ جن آدمیوں کے درمیان تھے ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ اور دوسرے کوئی اور شخص تھے(راوی حدیث) عبیداللہ کہتے ہیں: میں نے جو بات حضرت عائشہ ؓ سے سنی تھی جب حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم اس شخص کو جانتے ہو جس کا حضرت عائشہ نے نام نہیں لیا؟میں نے کہا: نہیں (جانتا۔) ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔
تشریح:
(1) حدیث میں مذکورہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات سے متعلق ہے۔ آپ اس وقت حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تھے جب آپ نے بیماری کے ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارنے کی اجازت طلب کی۔ اس موقع پر تمام ازواج نے اپنی اپنی باری ہبہ کر دی تھی۔ اجازت دینا شوہر کے لیے ازواج کا ہبہ تھا، پھر ازواج نے جن حقوق کو معاف فرمایا انہوں نے پھر اس سے رجوع بھی نہیں کیا۔ اس صورت میں ہبہ کے لغوی معنی مراد ہوں گے۔ (2) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدیقۂ کائنات نے حضرت علی ؓ کا نام عداوت کی وجہ سے نہیں لیا تھا، حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ایک طرف حضرت عباس ؓ تھے جو آخر تک رہے دوسری طرف حضرت بریرہ، پھر حضرت علی، حضرت فضل بن عباس ؓ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے۔ چونکہ ان میں سے کوئی ایک معین نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ نے اس کا تعین کرنے کے بجائے کہہ دیا کہ دوسری طرف ایک اور شخص تھا۔ اس تعبیر کو عداوت پر محمول کرنا صدیقۂ کائنات کے متعلق بدگمانی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2498
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2588
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2588
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2588
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ابراہیم نخعی کا اثر مصنف عبدالرزاق میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لعبد الرزاق:9/113) طحاوی میں ہے کہ ہبہ کرنے کے بعد کسی کو رجوع کا حق نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اثر کو بھی امام عبدالرزاق نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لعبد الرزاق:9/113) حدیث عائشہ کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی عنوان کے تحت بیان کیا ہے، نیز ہبہ کر کے واپس لینے کی وعید بھی اسی عنوان کے تحت بیان ہو گی۔ حضرت زہری کا تفصیلی بیان ابن وہب نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ اگر بیوی اپنا حق مہر خاوند کو ہبہ کرتی ہے لیکن بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے تو اسے حق مہر سے رجوع کا حق ہے اور خاوند بھی اسے واپس کرنے کا پابند ہے، بصورت دیگر واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیوی اپنے ہبہ سے رجوع کر سکتی ہے اگر وہ ثابت کر دے کہ میں نے جو کچھ کیا تھا شوہر کے دباؤ پر مجبوراً کیا تھا۔ (فتح الباری:5/267)
ابراہیم نخعی نے کہا کہ جائز ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ دونوں اپنا ہبہ واپس نہیں لے سکتے۔ نبی کریمﷺ نے مرض کے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزارنے کی اپنی دوسری بیویوں سے اجازت مانگی تھی ( اور ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری ہبہ کردی تھی ) اور آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ اپنا ہبہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی قے چاٹتا ہے۔ زہری نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنا کچھ مہر یا سارا مہر مجھے ہبہ کردے ( اور اس نے کردیا ) اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیوی نے ( اپنے مہر کا ہبہ ) واپس مانگا تو زہری نے کہا کہ اگر شوہر نے محض دھوکہ کے لیے ایسا کیا تھا تو اسے مہر واپس کرنا ہوگا۔ لیکن اگر بیوی نے اپنی خوشی سے مہر ہبہ کیا، اور شوہر نے بھی کسی قسم کا دھوکہ اس سلسلے میں اسے نہیں دیا، تو یہ صورت جائز ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” اگر تمہاری بیویاں دل سے اور خوش ہوکر تمہیں اپنے مہر کا کچھ حصہ دے دیں ( تو لے سکتے ہو )۔ یعنی اگر خاوند بیوی کو ہبہ کرے یا بیوی خاوند کو دونوں صورتوں میں ہبہ نافذ ہوگا اور رجوع جائز نہیں۔ ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز ان ہر دو کے اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ دوسری ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھو نے فرمایا: جب نبی کریم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور تکلیف سخت ہوگئی تو آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے اپنی بیماری کے ایام میرے گھر بسر کرنے کی اجازت طلب کی تو تمام ازواج نے بخوشی اجازت دے دی۔ آپ دو آدمیوں کے درمیان اس طرح نکلے کہ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کھینچتے تھے۔ آپ جن آدمیوں کے درمیان تھے ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ اور دوسرے کوئی اور شخص تھے(راوی حدیث) عبیداللہ کہتے ہیں: میں نے جو بات حضرت عائشہ ؓ سے سنی تھی جب حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم اس شخص کو جانتے ہو جس کا حضرت عائشہ نے نام نہیں لیا؟میں نے کہا: نہیں (جانتا۔) ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکورہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات سے متعلق ہے۔ آپ اس وقت حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تھے جب آپ نے بیماری کے ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارنے کی اجازت طلب کی۔ اس موقع پر تمام ازواج نے اپنی اپنی باری ہبہ کر دی تھی۔ اجازت دینا شوہر کے لیے ازواج کا ہبہ تھا، پھر ازواج نے جن حقوق کو معاف فرمایا انہوں نے پھر اس سے رجوع بھی نہیں کیا۔ اس صورت میں ہبہ کے لغوی معنی مراد ہوں گے۔ (2) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدیقۂ کائنات نے حضرت علی ؓ کا نام عداوت کی وجہ سے نہیں لیا تھا، حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ایک طرف حضرت عباس ؓ تھے جو آخر تک رہے دوسری طرف حضرت بریرہ، پھر حضرت علی، حضرت فضل بن عباس ؓ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے۔ چونکہ ان میں سے کوئی ایک معین نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ نے اس کا تعین کرنے کے بجائے کہہ دیا کہ دوسری طرف ایک اور شخص تھا۔ اس تعبیر کو عداوت پر محمول کرنا صدیقۂ کائنات کے متعلق بدگمانی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابراہیم نخعی کہتے ہیں: (بیوی خاوند کا ایک دوسرے کو ہبہ کرنا) جائز ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں: (ہبہ کرنے کے بعد) دونوں میں سے کسی کو رجوع کااختیار نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اوزاج مطہرات سے اجازت طلب کی کہ بیماری کے دوران وہ حضرت عائشہ ؓ کے گھر رہیں گے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "ہبہ کرکے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے پھر اسے چاٹ لے۔ "امام زہری نے اس شخص کے متعلق کہا جو اپنے بیوی سے کہے: مجھے اپنا کچھ یا سارا مہر ہبہ کردے، پھر تھوڑی دیر بعد اسے طلاق دےدے تو بیوی ہبہ کردہ حق مہر سے رجوع کرسکتی ہے۔ شوہرہبہ کو واپس کرے گا اگر اس کی نیت فریب کی تھی لیکن اگر عورت نے راضی خوشی معاف کردیا اور شوہر کے دل میں کوئی دھوکا نہ تھا تو وہ حق مہر شوہر کے لیے جائز ہے۔ ارشاری تعالیٰ ہے: "اگر وہ حق مہر میں سے کچھ خوش دلی سے معاف کردیں تو اسے مزے سے کھاؤ۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبردی، انہیں معمرنے، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا، جب رسول کریم ﷺ کی بیماری بڑھی اور تکلیف شدید ہوگئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت چاہی اور آپ کو بیویوں نے اجازت دے دی تو آپ اس طرح تشریف لائے کہ دونوں قدم زمین پر رگڑ کھارہے تھے۔ آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک اور صاحب کے درمیان تھے۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ ؓ کی اس حدیث کا ذکر ابن عباس ؓ سے کیا۔ تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، عائشہ ؓ نے جن کا نام نہیں لیا، جانتے ہووہ کون تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ کا یہ مرض الوفات تھا۔ آپ حضرت میمونہ ؓ کے گھر تھے۔ اس موقع پر جملہ ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhari (RA): Ubaidullah bin 'Abdullah told me that 'Aisha (RA) had said, "When the Prophet (ﷺ) became sick and his condition became serious, he requested his wives to allow him to be treated in my house, and they allowed him. He came out leaning on two men while his feet were dragging on the ground. He was walking between Al-'Abbas and another man." 'Ubaidullah said, "When I informed Ibn 'Abbas (RA) of what 'Aisha (RA) had said, he asked me whether I knew who was the second man whom 'Aisha (RA) had not named. I replied in the negative. He said, 'He was ' Ali Ibn Abi Talib (RA) ."