باب: اس بیان میں کہ غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: To rinse the mouth and to clean the nose by putting water in it and then blowing it out while taking the bath of Janaba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
259.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنےدائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور اسے مٹی سے رگڑا اور دھویا۔ بعد ازاں آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ اس کے بعد آپ اس جگہ سے الگ ہوئے اور اپنے پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو ایک رومال پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا باب کیوں قائم کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں: * امام بخاری ؒ مضمضة اور استنشاق کا الگ باب قائم کر کے غسل میں اس کا وجوب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ عینی ؒ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ (عمدة القاري:26/3) امام بخاری ؒ کا مقصد مضمضة اور استنشاق کا عدم وجوب ثابت کرنا ہے، اس کے قائل ابن بطال ہیں اور حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ 2۔ مضمضة اور استنشاق غسل میں واجب ہیں یا سنت ؟ احناف اور حنابلہ واجب کہتے ہیں جبکہ مالکیہ اور شوافع اسے سنت قراردیتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے یہ معلوم ہوتا ہے غالباً وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غسل سے پہلے اگر وضو نہ کیا جائے۔ (کیونکہ اسے وجوب کا درجہ حاصل نہیں صرف سنت ہی ہے) تو غسل سے پہلے مضمضة (کلی کرنے) اور استنشاق (ناک میں پانے ڈالنے ) کا اہتمام ضرور کر لیا جائے۔ واللہ أعلم 3۔ اس روایت میں ہے کہ غسل کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بدن صاف کرنے کے لیے رومال پیش کیا گیا، لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے بدن صاف کیا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:274۔ 276) اس سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ وضو اور غسل چونکہ عبادت کا مقدمہ ہیں اس لیے ان کا پانی بدن میں جذب ہونا چاہیے، اسے ہاتھ یا کپڑے سے صاف کرنا عبادت کے اثر کو زائل کرنا ہے جو درست نہیں، اس مسئلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ وضو کے بعد اپنے ہاتھوں کو صاف نہ کرو۔ یہ حدیث صحیح نہیں۔ ابن صلاح نے لکھا ہے کہ مجھے اس حدیث کا سراغ نہیں ملا۔ یہ حدیث امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف "الضعفاء" میں اور ابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کی ہے، لیکن یہ معیار محدثین پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا قابل حجت نہیں۔ بہر حال وضو اور غسل میں اعضاء پر لگا ہوا پانی صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:471/1) باقی رہا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رومال کو استعمال نہیں فرمایا تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ غسل کے بعد اس کا استعمال ضروری نہیں، اگر ضرورت ہو تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
261
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
259
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
259
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
259
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنےدائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور اسے مٹی سے رگڑا اور دھویا۔ بعد ازاں آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ اس کے بعد آپ اس جگہ سے الگ ہوئے اور اپنے پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو ایک رومال پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا باب کیوں قائم کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں: * امام بخاری ؒ مضمضة اور استنشاق کا الگ باب قائم کر کے غسل میں اس کا وجوب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ عینی ؒ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ (عمدة القاري:26/3) امام بخاری ؒ کا مقصد مضمضة اور استنشاق کا عدم وجوب ثابت کرنا ہے، اس کے قائل ابن بطال ہیں اور حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ 2۔ مضمضة اور استنشاق غسل میں واجب ہیں یا سنت ؟ احناف اور حنابلہ واجب کہتے ہیں جبکہ مالکیہ اور شوافع اسے سنت قراردیتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے یہ معلوم ہوتا ہے غالباً وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غسل سے پہلے اگر وضو نہ کیا جائے۔ (کیونکہ اسے وجوب کا درجہ حاصل نہیں صرف سنت ہی ہے) تو غسل سے پہلے مضمضة (کلی کرنے) اور استنشاق (ناک میں پانے ڈالنے ) کا اہتمام ضرور کر لیا جائے۔ واللہ أعلم 3۔ اس روایت میں ہے کہ غسل کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بدن صاف کرنے کے لیے رومال پیش کیا گیا، لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے بدن صاف کیا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:274۔ 276) اس سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ وضو اور غسل چونکہ عبادت کا مقدمہ ہیں اس لیے ان کا پانی بدن میں جذب ہونا چاہیے، اسے ہاتھ یا کپڑے سے صاف کرنا عبادت کے اثر کو زائل کرنا ہے جو درست نہیں، اس مسئلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ وضو کے بعد اپنے ہاتھوں کو صاف نہ کرو۔ یہ حدیث صحیح نہیں۔ ابن صلاح نے لکھا ہے کہ مجھے اس حدیث کا سراغ نہیں ملا۔ یہ حدیث امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف "الضعفاء" میں اور ابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کی ہے، لیکن یہ معیار محدثین پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا قابل حجت نہیں۔ بہر حال وضو اور غسل میں اعضاء پر لگا ہوا پانی صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:471/1) باقی رہا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رومال کو استعمال نہیں فرمایا تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ غسل کے بعد اس کا استعمال ضروری نہیں، اگر ضرورت ہو تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے سالم نے کریب کے واسطہ سے، وہ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں، کہا ہم سے میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو پہلے آپ نے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر گرایا۔ اس طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر اسے مٹی سے ملا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرہ کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ ﷺ نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔ کذا قال أهل الحدیث و إمام أحمد بن حنبل۔ ابن قیم ؒ نے فرمایا کہ وضو کے بعد اعضاء کے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ ﷺ نے رومال واپس کردیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔ امام نووی ؒ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں، کچھ مستحب کہتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): I placed water for the bath of the Prophet (ﷺ) and he poured water with his right hand on his left and washed them. Then he washed his private parts and rubbed his hands on the ground, washed them with water, rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and blowing it out, washed his face and poured water on his head. He withdrew from that place and washed his feet. A piece of cloth (towel) was given to him but he did not use it.