باب : اگر عورت اپنے خاوند کے سوا اور کسی کو کچھ ہبہ کرے یا غلام لونڈی آزاد کرے اور ہبہ کے وقت اس کا خاوند موجود ہو، توہبہ جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: A woman giving gifts to someone other than husband)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عورت بے عقل نہ ہو۔ کیوں کہ اگر وہ بے عقل ہوگی تو جائز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دو “۔ اگر اس عورت کا خاوند ہبہ کے وقت موجود نہ ہو، مرگیا ہو یا عورت نے نکاح ہی نہ کیا ہو تب تو بالاتفاق ہبہ درست ہے، عورت اگر دیوانی ہے تو ہبہ جائز نہ ہوگا۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کا ہبہ جب اس کا خاوند موجود ہو بغیر خاوند کی اجازت کے صحیح نہ ہوگا گو وہ عقل والی ہو۔ مگر تہائی مال تک نافذ ہوگا وصیت کی طرح۔
2592.
حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کردیا جس کی بابت انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اجازت نہیں لی تھی۔ جب ان کی باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کردیا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’ کیا واقعی تم آزاد کرچکی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: ’’اگر تم وہ لونڈی اپنے ننھیال کو دیتیں تو تمھیں زیادہ ثواب ہوتا۔‘‘ بکر بن مضر نے عمروسے، انھوں نے بکیر سے، انھوں نے کریب سے بیان کیا کہ حضرت میمونہ ؓ نے (لونڈی) آزاد کی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں: ایک تو رسول اللہ ﷺ کی عدم موجودگی میں لونڈی آزاد کرنا، امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے باطل قرار نہیں دیا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے ایک بہتر کام کی طرف رہنمائی کی ہے اور دوسری صلہ رحمی کرنا کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کا ثواب اسے آزاد کرنے سے زیادہ ہوتا۔‘‘ اس مقام پر ہدیہ نہیں صلہ رحمی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسکین پر صدقہ کرنا تو صرف صدقہ ہے لیکن رشتے دار کے ساتھ دست تعاون بڑھانا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘ (فتح الباري:269/5، و سنن النسائي، الزکاة، حدیث:2583) (2) دراصل امام بخاری ؒ ایک حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا عطیہ نافذ نہیں ہو گا۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3547) امام مالک نے ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ایک تہائی سے کم اجازت کے بغیر ہبہ کر سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اگر ہبہ کرنا ہو تو خاوند سے اجازت لینا ہو گی۔ (فتح الباري:268/5) (3) امام بخاری ؒ نے حدیث میمونہ کے بعد جو تعلیق ذکر کی ہے اس کے دو مقاصد ہیں: محمد بن اسحاق جب یہ روایت بکیر سے بیان کرتے ہیں تو بکیر عن سلیمان بن یسار کے طریق کا ذکر کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت میں یزید جب بکیر سے بیان کرتے ہیں تو "بکیر عن کریب" بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرو بھی یزید کی متابعت کرتے ہوئے اسے بکیر عن کریب ہی بیان کرتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ دوسری بات یہ ذکر کی کہ عمرو بیان کرتے ہیں تو مرسل ذکر کرتے ہیں، یعنی ان کی روایت میں کریب کا انداز یوں ہے کہ انہوں نے خود واقعے کا مشاہدہ کیا۔ (فتح الباري:270/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2502
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2592
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2592
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2592
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض حضرات کا موقف ہے کہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر بیوی ہبہ نہیں کر سکتی، اگر وہ اجازت دے دے تو جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ موقف محل نظر ہے، ہاں اگر وہ بے وقوف ہے تو اسے اپنا مال ضائع کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے۔ قرآنی حکم اگرچہ یتیم بچوں کے متعلق ہے، تاہم یہ حکم دوسرے لوگوں کے لیے عام ہے جس میں بیوی بھی شامل ہے۔ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہو یا اس نے نکاح ہی نہ کیا ہو تو بالاتفاق اس کا ہبہ درست اور جائز ہے، اسی طرح عورت اگر دیوانی ہے تو اس کا ہبہ کرنا ناجائز ہے۔ (فتح الباری:5/268)
لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عورت بے عقل نہ ہو۔ کیوں کہ اگر وہ بے عقل ہوگی تو جائز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دو “۔ اگر اس عورت کا خاوند ہبہ کے وقت موجود نہ ہو، مرگیا ہو یا عورت نے نکاح ہی نہ کیا ہو تب تو بالاتفاق ہبہ درست ہے، عورت اگر دیوانی ہے تو ہبہ جائز نہ ہوگا۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کا ہبہ جب اس کا خاوند موجود ہو بغیر خاوند کی اجازت کے صحیح نہ ہوگا گو وہ عقل والی ہو۔ مگر تہائی مال تک نافذ ہوگا وصیت کی طرح۔
حدیث ترجمہ:
حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کردیا جس کی بابت انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اجازت نہیں لی تھی۔ جب ان کی باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کردیا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’ کیا واقعی تم آزاد کرچکی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: ’’اگر تم وہ لونڈی اپنے ننھیال کو دیتیں تو تمھیں زیادہ ثواب ہوتا۔‘‘ بکر بن مضر نے عمروسے، انھوں نے بکیر سے، انھوں نے کریب سے بیان کیا کہ حضرت میمونہ ؓ نے (لونڈی) آزاد کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں: ایک تو رسول اللہ ﷺ کی عدم موجودگی میں لونڈی آزاد کرنا، امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے باطل قرار نہیں دیا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے ایک بہتر کام کی طرف رہنمائی کی ہے اور دوسری صلہ رحمی کرنا کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کا ثواب اسے آزاد کرنے سے زیادہ ہوتا۔‘‘ اس مقام پر ہدیہ نہیں صلہ رحمی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسکین پر صدقہ کرنا تو صرف صدقہ ہے لیکن رشتے دار کے ساتھ دست تعاون بڑھانا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘ (فتح الباري:269/5، و سنن النسائي، الزکاة، حدیث:2583) (2) دراصل امام بخاری ؒ ایک حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا عطیہ نافذ نہیں ہو گا۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3547) امام مالک نے ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ایک تہائی سے کم اجازت کے بغیر ہبہ کر سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اگر ہبہ کرنا ہو تو خاوند سے اجازت لینا ہو گی۔ (فتح الباري:268/5) (3) امام بخاری ؒ نے حدیث میمونہ کے بعد جو تعلیق ذکر کی ہے اس کے دو مقاصد ہیں: محمد بن اسحاق جب یہ روایت بکیر سے بیان کرتے ہیں تو بکیر عن سلیمان بن یسار کے طریق کا ذکر کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت میں یزید جب بکیر سے بیان کرتے ہیں تو "بکیر عن کریب" بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ عمرو بھی یزید کی متابعت کرتے ہوئے اسے بکیر عن کریب ہی بیان کرتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ دوسری بات یہ ذکر کی کہ عمرو بیان کرتے ہیں تو مرسل ذکر کرتے ہیں، یعنی ان کی روایت میں کریب کا انداز یوں ہے کہ انہوں نے خود واقعے کا مشاہدہ کیا۔ (فتح الباري:270/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے بکیر نے، ان سے ابن عباس کے غلام کریب نے اور انہیں (ام المؤمنین) حضرت میمونہ بنت حارث ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک لونڈی نبی کریم ﷺ سے اجازت لیے بغیر آزاد کر دی۔ پھر جس دن نبی کریم ﷺ کی باری آپ کے گھر آنے کی تھی، انہوں نے خدمت نبوی میں عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو معلوم بھی ہوا، میں نے ایک لونڈی آزاد کردی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا تم نے آزاد کردیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ! فرمایا کہ اگر اس کے بجائے تم نے اپنے ننھیال والوں کو دی ہوتی تو تمہیں اس سے بھی زیادہ ثواب ملتا۔ اس حدیث کو بکیر بن مضر نے عمر وبن حارث سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے کریب سے روایت کیا کہ میمونہ ؓ نے اپنی لونڈی آزاد کردی۔ اخیر تک۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Kurib (RA): the freed slave of Ibn 'Abbas (RA), that Maimuna bint Al-Harith told him that she manumitted a slave-girl without taking the permission of the Prophet. On the day when it was her turn to be with the Prophet, she said, "Do you know, O Allah's Apostle, that I have manumitted my slave-girl?" He said, "Have you really?" She replied in the affirmative. He said, "You would have got more reward if you had given her (i.e. the slave-girl) to one of your maternal uncles."