باب: اگر کوئی ہبہ کرے اور موہوب لہ اس پر قبضہ کرلے لیکن زبان سے قبول نہ کرے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The receiver taking the gift into his possession)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2600.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے رمضان میں بحالت روزہ بیوی سے جنسی تعلق قائم کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم ایک غلام آزاد کرسکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: میں یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں ایک انصاری کھجوروں کا ایک عرق لے کرآیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ ۔ ۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ ٹوکرا لے جاؤ اور انھیں صدقہ کردو۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اپنے سے کسی زیادہ غریب پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول ﷺ برحق بناکر بھیجاہے!مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا جاؤ یہ اپنے ہی گھر والوں کو کھلادو۔‘‘
تشریح:
مقصد یہ ہے کہ ہبہ میں چیز قبضے میں لینا ہی کافی ہے، زبان سے قبول کہنے کی ضرورت نہیں جبکہ امام شافعی ؒ کے نزدیک ہبہ میں طرفین سے ایجاب و قبول ضروری ہے، اس کے بغیر ہبہ ناتمام ہے۔ لیکن ان کا موقف مرجوح ہے۔ اس روایت میں ہے کہ اس آدمی نے کھجور کے ٹوکرے پر قبضہ کیا، زبان سے اسے قبول کرنے کا اقرار نہیں، صرف اتنا کرنے سے ہبہ ہو گیا۔ ہر معاملے میں ایجاب و قبول کی قید لگانا، اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے مترادف ہے، ہاں اگر کوئی اہم معاملہ ہو تو اس کے لیے ایجاب و قبول کی شرط لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے نکاح کے متعلق بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک صدقے اور ہبے کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ یہ کھجوریں صدقے کی تھیں اصطلاحی ہبہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2510
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2600
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2600
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2600
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ہبہ میں زبان سے ایجاب و قبول ضروری نہیں، البتہ نکاح وغیرہ میں زبان سے ایجاب و قبول ضروری ہے کہ نکاح خواں کہے: میں نے یہ لڑکی تمہارے نکاح میں دی اور دولہا کہے: میں نے اسے قبول کیا، لیکن معمول کے لینے دینے میں زبان سے اس کی ادائیگی تکلیف سے خالی نہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: میں نے رمضان میں بحالت روزہ بیوی سے جنسی تعلق قائم کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم ایک غلام آزاد کرسکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاسکتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: میں یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں ایک انصاری کھجوروں کا ایک عرق لے کرآیا۔ عرق بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ ۔ ۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ ٹوکرا لے جاؤ اور انھیں صدقہ کردو۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اپنے سے کسی زیادہ غریب پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول ﷺ برحق بناکر بھیجاہے!مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں ہم سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا جاؤ یہ اپنے ہی گھر والوں کو کھلادو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ہبہ میں چیز قبضے میں لینا ہی کافی ہے، زبان سے قبول کہنے کی ضرورت نہیں جبکہ امام شافعی ؒ کے نزدیک ہبہ میں طرفین سے ایجاب و قبول ضروری ہے، اس کے بغیر ہبہ ناتمام ہے۔ لیکن ان کا موقف مرجوح ہے۔ اس روایت میں ہے کہ اس آدمی نے کھجور کے ٹوکرے پر قبضہ کیا، زبان سے اسے قبول کرنے کا اقرار نہیں، صرف اتنا کرنے سے ہبہ ہو گیا۔ ہر معاملے میں ایجاب و قبول کی قید لگانا، اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے مترادف ہے، ہاں اگر کوئی اہم معاملہ ہو تو اس کے لیے ایجاب و قبول کی شرط لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے نکاح کے متعلق بیان کیا ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک صدقے اور ہبے کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ یہ کھجوریں صدقے کی تھیں اصطلاحی ہبہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہاہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا زہری سے، وہ حمید بن عبدالرحمن سے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک د یہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں تو ہلاک ہوگیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا بات ہوئی؟ عرض کیا کہ رمضان میں میں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا، کیا دو مہینے پے در پے روزے رکھ سکتے ہو؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا، کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو؟ اس پر بھی جواب تھا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک انصاری عرق لائے۔ (عرق کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ایک ٹوکرا ہوتا تھا جس میں کھجور رکھی جاتی تھی) آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کردے انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کردوں؟ اور اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھےجا ہے کہ سارے مدینے میں ہم سے زیادہ محتاج اور کوئی گھرانہ نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر جا، اپنے ہی گھر والوں کو کھلادے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I am ruined." The Prophet (ﷺ) asked, "What do you mean?" He said, "I had a sexual intercourse with my wife during Ramadan (while fasting)." The Prophet (ﷺ) asked him, "Can you manumit a slave?" He replied in the negative. He then asked him, "Can you fast for two successive months continuously" He replied in the negative. The Prophet (ﷺ) then asked him, "Can you feed sixty poor persons?" He replied in the negative. In the meantime an Ansari came with a basket full of dates. The Prophet (ﷺ) said to the man, "Take it and give it in charity (as an expiation of your sin)." The man said "Should I give it to some people who are poorer than we O Allah's Apostle? By Him Who has sent you with the Truth, there is no family between Medina's two mountains poorer than we." Allah's Apostle (ﷺ) told him to take it and provide his family with it."