Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: A gift of clothes, wearing of which is disliked)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2612.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔ )آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔
تشریح:
(1) بعض چیزیں ذاتی طور پر مکروہ ہوتی ہیں، مثلاً: سڑا ہوا یا باسی سالن وغیرہ، ایسی اشیاء کا تحفہ تو حماقت ہے اور کچھ چیزوں میں کراہت اضافی ہوتی ہے، مثلاً: ریشمی لباس، یہ مردوں کے لیے جائز نہیں، البتہ عورتیں اسے پہن سکتی ہیں۔ ایسی اشیاء بطور تحفہ دی جا سکتی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: کراہت سے مراد عام ہے، خواہ تحریمی ہو یا تنزیہی، یعنی جس لباس کا پہننا مردوں کے لیے ناجائز ہو اس کا ہدیہ جائز ہے کیونکہ اس کا مالک اس میں تصرف کر سکتا ہے، البتہ جن چیزوں کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے منع ہے، مثلاً: سونے چاندی کے برتن تو ایسا ہدیہ ممنوع ہے۔ (فتح الباري:281/5) (2) ہمارے رجحان کے مطابق ان برتنوں کا استعمال ممنوع ہے، البتہ انہیں فروخت کر کے ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہذا ایسی چیز کا تحفہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو مکے میں تحفہ بھیجا تھا، البتہ جو چیزیں ذاتی طور پر حرام ہیں ان کا تحفہ بھی حرام ہے جیسا کہ آلات موسیقی کا تحفہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر ٹی وی کا تحفہ بھی ناجائز ہے جو ہم اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2521
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2612
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2612
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2612
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کراہت عام ہے تنز یہی یا تحریمی اہل حدیث حرام کو بھی مکروہ کہہ دیتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھاتو عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہی اچھا ہو اگرآپ اسےخرید لیں اور جمعے کے دن، نیز کسی وفد کی آمد کے موقع پر اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسے جوڑے تو وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ پھر کچھ اور جوڑے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ یہ خلعت مجھے عنائیت فرما رہے ہیں، حالانکہ آپ نے حلہ عطارد کے متعلق تو جو کچھ فرماناتھا، فرماچکے ہیں۔ (یعنی آپ نے ان کے متعلق تو بہت سخت وعید سنائی تھی۔ )آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ خلعت تمھیں پہننے کے لیے نہیں دی۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض چیزیں ذاتی طور پر مکروہ ہوتی ہیں، مثلاً: سڑا ہوا یا باسی سالن وغیرہ، ایسی اشیاء کا تحفہ تو حماقت ہے اور کچھ چیزوں میں کراہت اضافی ہوتی ہے، مثلاً: ریشمی لباس، یہ مردوں کے لیے جائز نہیں، البتہ عورتیں اسے پہن سکتی ہیں۔ ایسی اشیاء بطور تحفہ دی جا سکتی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: کراہت سے مراد عام ہے، خواہ تحریمی ہو یا تنزیہی، یعنی جس لباس کا پہننا مردوں کے لیے ناجائز ہو اس کا ہدیہ جائز ہے کیونکہ اس کا مالک اس میں تصرف کر سکتا ہے، البتہ جن چیزوں کا استعمال مردوں اور عورتوں کے لیے منع ہے، مثلاً: سونے چاندی کے برتن تو ایسا ہدیہ ممنوع ہے۔ (فتح الباري:281/5) (2) ہمارے رجحان کے مطابق ان برتنوں کا استعمال ممنوع ہے، البتہ انہیں فروخت کر کے ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہذا ایسی چیز کا تحفہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو مکے میں تحفہ بھیجا تھا، البتہ جو چیزیں ذاتی طور پر حرام ہیں ان کا تحفہ بھی حرام ہے جیسا کہ آلات موسیقی کا تحفہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کے موقع پر ٹی وی کا تحفہ بھی ناجائز ہے جو ہم اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے نافع سے اور ان سے ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ عمر ؓ نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک ریشمی حلہ ( بک رہا ) ہے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ کیا اچھا ہوتا اگر آپ اسے خرید لیتے اور جمعہ کے دن اور وفود کی ملاقات کے موقع پر اسے زیب تن فرما لیاکرتے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسے وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں بعد آنحضرت ﷺ کے یہاں بہت سے ( ریشمی ) حلے آئے اور آپ نے ایک حلہ ان میں سے حضرت عمر ؓ کو بھی عنایت فرمایا۔ عمر ؓ نے اس پر عرض کیا کہ آپ یہ مجھے پہننے کے لیے عنایت فرما رہے ہیں۔ حالانکہ آپ خود عطارد کے حلوں کے بارے میں جو کچھ فرمانا تھا فرماچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ عمر ؓ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا، جو مکے میں رہتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
عطارد بن حاجب بن زرارہ بن عدس بنی تمیم کا بھیجا ہوا ایک شخص تھا۔ پہلا جوڑا جس کے خریدنے کی حضرت عمر ؓ نے رائے دی تھی، وہی لایا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ریشمی حلے کا ہدیہ حضرت عمر ؓ کو پیش فرمایا جس کا خود استعمال کرنا حضرت عمر ؓ کے لیے جائز نہ تھا۔ تفصیل معلوم کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک غیرمسلم سگے بھائی کو دے دیا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اپنے عزیز اگر غیرمسلم یا بد دین ہیں تب بھی ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک کرنا چاہئے کیوں کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ اور مقام انسانیت بہر حال ارفع و اعلیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): Umar bin Al-Khattab (RA) saw a silken dress (cloak) being sold at the gate of the Mosque and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Would that you buy it and wear it on Fridays and when the delegates come to you!" Allah's Apostle (ﷺ) said, "This is worn by the one who will have no share in the Hereafter." Later on some silk dresses were brought and Allah's Apostle (ﷺ) sent one of them to 'Umar. 'Umar said, "How do you give me this to wear while you said what you said about the dress of 'Utarid?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "I have not given it to you to wear." So, 'Umar gave it to a pagan brother of his in Makkah.