Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: A gift of clothes, wearing of which is disliked)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2613.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے لیکن اندر داخل نہ ہوئے۔ حضر ت علی ؓ جب گھر آئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے ان کے دروازے پر نقش ونگار سے سجا ہوا پردہ دیکھا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’بھلا مجھے اس دنیا سے کیا سروکار؟‘‘ یہ بات حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے بیان کی تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ جو چاہیں حکم دیں اس پر عمل ہوگا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ فلاں اہل خانہ کے پاس بھیج دیں، وہ محتاج اور غریب ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) دروازے پر لگائے ہوئے پردے میں ذاتی طور پر کوئی خرابی نہ تھی، بلکہ وہ دھاری دار اور اس پر نقش و نگار کا کچھ کام ہوا تھا۔ یہ سادگی اور تقویٰ کے خلاف ضرور تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے وہ پردہ ایسے لوگوں کو بطور ہدیہ دینے کا حکم دیا جو محتاج تھے۔ وہ اسے فروخت کر کے اپنے کسی مصرف میں لا سکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے اسے ناپسند فرمایا کیونکہ آپ خود اور اہل خانہ کے لیے سادگی پسند کرتے تھے۔ (2) محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا خاندانِ نبوت کے لیے مناسب نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس طرح کا سامان آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2522
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2613
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2613
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2613
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کراہت عام ہے تنز یہی یا تحریمی اہل حدیث حرام کو بھی مکروہ کہہ دیتے ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے لیکن اندر داخل نہ ہوئے۔ حضر ت علی ؓ جب گھر آئے تو سیدہ فاطمہ ؓ نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے ان کے دروازے پر نقش ونگار سے سجا ہوا پردہ دیکھا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’بھلا مجھے اس دنیا سے کیا سروکار؟‘‘ یہ بات حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے بیان کی تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ جو چاہیں حکم دیں اس پر عمل ہوگا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ فلاں اہل خانہ کے پاس بھیج دیں، وہ محتاج اور غریب ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دروازے پر لگائے ہوئے پردے میں ذاتی طور پر کوئی خرابی نہ تھی، بلکہ وہ دھاری دار اور اس پر نقش و نگار کا کچھ کام ہوا تھا۔ یہ سادگی اور تقویٰ کے خلاف ضرور تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے وہ پردہ ایسے لوگوں کو بطور ہدیہ دینے کا حکم دیا جو محتاج تھے۔ وہ اسے فروخت کر کے اپنے کسی مصرف میں لا سکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے اسے ناپسند فرمایا کیونکہ آپ خود اور اہل خانہ کے لیے سادگی پسند کرتے تھے۔ (2) محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا خاندانِ نبوت کے لیے مناسب نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس طرح کا سامان آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوجعفر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے نافع سے اور ان سے ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے، لیکن اندر نہیں گئے۔ اسکے بعد حضرت علی ؓ گھر آئے تو فاطمہ ؓ نے ذکر کیا (کہ آپ ﷺ گھر میں تشریف نہیں لائے) علی ؓ نے اس کا ذکرحب آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس کے دروازے پر دھاری دار پردہ لٹکا دیکھا تھا (اس لیے واپس چلا آیا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا (کی آرائش و زیبائش) سے کیا سروکار۔ حضرت علی ؓ نے آکر ان سے آپ کی گفتگو کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جس طرح کا چاہیں اس سلسلے میں حکم فرمائیں۔ (آنحضرت ﷺ کو جب یہ بات پہنچی تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں گھر میں اسے بھجوادیں۔ انہیں اس کی ضرورت ہے۔
حدیث حاشیہ:
دروازہ پرکپڑا بطور پردہ لٹکانا ناجائز نہ تھا، مگر محض زیب و زینت کے لیے کپڑا لٹکانا یہ خانوادہ نبوت کے لیے اس لیے مناسب نہیں تھا کہ الفقرُ فخري ان کا طرہ امتیاز تھا۔ آپ نے جو اپنے لیے پسند فرمایا اس کے لیے حضرت فاطمہ ؓ کو ہدایت فرمائی اور ایک موقع پر آیت کریمہ وللاخرۃ خیرلک من الاولیٰ (الضحیٰ:4) کی روشنی میں ارشاد ہوا کہ میرے لیے میری آل کے لیے دنیاوی تعیش اور ترفع لائق نہیں، اللہ نے ہمارے لیے، سب کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرار ؓ آنحضرت ﷺ کی بہت ہی پیاری بیٹی ہیں، ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ آنحضرت ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ دنیا و آخرت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ رمضان2ھ میں ان کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا اور ذی الحجہ میں رخصتی عمل میں آئی۔ ان کے بطن سے حضرت علی ؓ کے تین صاحبزادے حضرت حسن و حضرت حسین حضرت محسن ؓ اور زینب، ام کلثوم اور رقیہ تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ وفات نبوی کے چھ ماہ بعد مدینہ طیبہ ہی میں بعمر28سال انتقال فرمایا۔ حضرت علی ؓ نے ان کو غسل دیا اور حضرت عباس ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ شب میں دفن کی گئیں۔ حضرت حسن اور حسین ؓ اور ان کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ میں نے کسی کو ان سے زیادہ سچا نہیں پایا۔ انہوں نے فرمایا جبکہ ان دونوں کے درمیان کسی بات میں کبیدگی تھی کہ یارسول اللہ ﷺ ان ہی سے پوچھ لیجئے کیوں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی ہیں۔ مزید مناقب اپنے مقام میں آئیں گے۔ (رضي اللہ عنها) 4اپریل 70 ءمیں اس حدیث تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں بغور و فکر متن بخاری شریف پارہ دس کو پڑھاگیا۔ اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور کلام رسول اللہ ﷺ کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کا صحیح ترجمہ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تشریحات میں بھی اللہ پاک فہم و فراست نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Once the Prophet (ﷺ) went to the house of Fatima but did not enter it. 'Ali came and she told him about that. When 'All asked the Prophet (ﷺ) about it, he said, "I saw a (multi-colored) decorated curtain on her door. I am not interested in worldly things." 'Ali went to Fatima and told her about it. Fatima said, "I am ready to dispense with it in the way he suggests." The Prophet (ﷺ) ordered her to send it to such-and-such needy people. "