Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The acceptance of presents from Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک کافر بادشاہ یا ( یہ کہا کہ ) ظالم بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے کہا کہ انہیں ( ابراہیمؑ کو ) آجر ( ہاجرہ ) کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( خیبر کے یہ ودیوں کی طرف سے دشمنی میں ) ہد یہ کے طور پر بکری کا ایسا گوشت پیش کیا گیا تھا جس میں زہر تھا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ ایلہ کے حاکم نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سفید خچر اور چادر ہد یہ کے طور بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے۔ ( کیوں کہ اس نی جز یہ دینا منظور کرلیا تھا )۔ تشریح : دومۃ الجندل ایک شہر کا نام تھا تبوک کے قریب۔ وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن نصرانی تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے لائے۔ آنحضرتﷺ نے اسے آزاد فرمادیا کیو ںکہ وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس نے ہدیہ مذکور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا۔ کہتے ہیں حضرت سارہ بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف سن کر بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس کا نام عمرو بن امرءالقیس بتلایا ہے۔ حضرت ہاجرہ اس کی بیٹی تھیں۔ بادشاہ نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر چاہا کہ اس کی بیٹی اس مبارک خاندان میں داخل ہوکر برکتوں سے حصہ پائے۔ حضرت ہاجرہ کو لونڈی باندی کہنا غلط ہے جس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ ایلہ نامی مقام مذکورہ مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن اوبہ تھا۔ ان روایات کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مشرکین و کفار کے ہدایا کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔
2616.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ دومۃ الجندل کے حاکم اکیدر نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجا تھا۔
تشریح:
(1) دومۃ الجندل ایک شہر کا نام ہے جو تبوک کے قریب تھا، وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک عیسائی تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ اسے گرفتار کر کے لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے جزیہ دینے پر صلح کر لی تھی۔ سندس ریشم کا جبہ اس نے بطور تحفہ بھیجا تھا۔ آپ نے وہ جبہ حضرت علی ؓ کو دیا اور فرمایا: ’’اسے فواطم میں تقسیم کر دو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث:5422(2071)) تو حضرت علی ؓ نے اس کے چار ٹکڑے کر کے اپنے زوجہ حضرت فاطمہ ؓ اور والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد، نیز فاطمہ بنت حمزہ اور فاطمہ بنت ابی طالب ام ہانی کو تقسیم کر دیے۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے تحائف قبول کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ سیاسی اور معاشرتی حالات سازگار ہوں۔ اگر حالات خراب ہوں تو تحائف کا تبادلہ جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2524.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2616
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2616
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2616
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت متصل سند سے آئندہ بیان ہو گی۔ (صحیح البخاری،احادیث الانبیاء،حدیث:3358) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کا زہر آلود گوشت پیش کرنے کا واقعہ بھی اسی عنوان کے تحت ذکر کیا جائے گا۔ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت متصل طور پر پہلے بیان ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1481) ان روایات کا مطلب ہے کہ اگر مشرکین کے ساتھ سیاسی اور معاشرتی تعلقات صحیح ہوں تو ان کے تحائف قبول کرنے صحیح ہیں، بصورت دیگر تحائف کا تبادلہ مفاد پرستی ہے۔
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک کافر بادشاہ یا ( یہ کہا کہ ) ظالم بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے کہا کہ انہیں ( ابراہیمؑ کو ) آجر ( ہاجرہ ) کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( خیبر کے یہ ودیوں کی طرف سے دشمنی میں ) ہد یہ کے طور پر بکری کا ایسا گوشت پیش کیا گیا تھا جس میں زہر تھا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ ایلہ کے حاکم نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سفید خچر اور چادر ہد یہ کے طور بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے۔ ( کیوں کہ اس نی جز یہ دینا منظور کرلیا تھا )۔ تشریح : دومۃ الجندل ایک شہر کا نام تھا تبوک کے قریب۔ وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن نصرانی تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے لائے۔ آنحضرتﷺ نے اسے آزاد فرمادیا کیو ںکہ وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس نے ہدیہ مذکور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا۔ کہتے ہیں حضرت سارہ بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف سن کر بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس کا نام عمرو بن امرءالقیس بتلایا ہے۔ حضرت ہاجرہ اس کی بیٹی تھیں۔ بادشاہ نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر چاہا کہ اس کی بیٹی اس مبارک خاندان میں داخل ہوکر برکتوں سے حصہ پائے۔ حضرت ہاجرہ کو لونڈی باندی کہنا غلط ہے جس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ ایلہ نامی مقام مذکورہ مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن اوبہ تھا۔ ان روایات کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مشرکین و کفار کے ہدایا کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ دومۃ الجندل کے حاکم اکیدر نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دومۃ الجندل ایک شہر کا نام ہے جو تبوک کے قریب تھا، وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک عیسائی تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ اسے گرفتار کر کے لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے جزیہ دینے پر صلح کر لی تھی۔ سندس ریشم کا جبہ اس نے بطور تحفہ بھیجا تھا۔ آپ نے وہ جبہ حضرت علی ؓ کو دیا اور فرمایا: ’’اسے فواطم میں تقسیم کر دو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث:5422(2071)) تو حضرت علی ؓ نے اس کے چار ٹکڑے کر کے اپنے زوجہ حضرت فاطمہ ؓ اور والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد، نیز فاطمہ بنت حمزہ اور فاطمہ بنت ابی طالب ام ہانی کو تقسیم کر دیے۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے تحائف قبول کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ سیاسی اور معاشرتی حالات سازگار ہوں۔ اگر حالات خراب ہوں تو تحائف کا تبادلہ جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺسے بیا ن کیا کہ (آپ نے فرمایا: )"حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ علیہ السلام کو لے کر ہجرت کی اور ایک ایسی بستی میں پہنچے جہاں کا بادشاہ ظالم تھا(اس نے سارہ سے دست درازی کرنا چاہی تو اس کا ہاتھ مفلوج ہوگیا) اس نے کہا: انھیں ہاجرہ بطور خدمت دو۔ "ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر ملاہواتھا۔ حضرت ابو حمید ساعدیؓنے کہا: ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریمﷺ کو سفید خچر بطور ہدیہ بھیجا اور آپ نے اسے ایک ریشمی چادر عنائیت فرمائی اور اسے اس علاقے کی حکومت لکھ دی۔
حدیث ترجمہ:
سعد نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس ؓ نے کہ دومہ (تبوک کے قریب ایک مقام کے اکیدر نصرانی) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا۔
حدیث حاشیہ:
جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas added, "The present was sent to the Prophet (ﷺ) by Ukaidir (a Christian) from Dauma."