Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Giving presents to Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو لوگ تم سے دین کے بارے میں لڑے نہیں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے انہوں نے نکالا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف کرنے سے تمہیں نہیں روکتا “۔ اس آیت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ مشرکوں اور کافروں سے دنیاوی اخلاق اور سلوک منع نہیں ہے۔
2619.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو ریشمی حلہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: آپ اس حلے کو خرید لیں۔ تاکہ جمعے کے دن، نیز جب آپ کے پاس وفد آئے تو اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‘‘ پھر (ایسا ہوا) کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے چند حلے لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: میں اس کو کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے اس کے متعلق جو کچھ فرمانا تھا، فر چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا۔ بلکہ تم اسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ یا کسی اور کو پہنادو۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ میں رہتا تھا اور ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
تشریح:
(1) حلہ، قمیص، چادر اور تہ بند پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر کسی چیز میں ذاتی برائی نہیں ہے تو وہ مطلق طور پر حرام نہیں ہوتی۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں تو انہیں تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی حلہ اپنے مشرک اخیافی یا رضاعی بھائی کو بطور تحفہ بھیجا تاکہ اس میں اسلام کے متعلق کوئی رغبت پیدا ہو اور وہ کفر و شرک کی غلاظت سے پاک ہو جائے، چنانچہ روایات میں ہے کہ وہ اس کے بعد مسلمان ہو گیا تھا، اس کا نام عثمان بن حکیم اور اس کی ماں کا نام خیثمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا جو لعین ابو جہل کے چچا کی بیٹی تھی۔ (فتح الباري:287/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2527
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2619
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2619
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2619
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
تاریخی طور پر یہ آیت فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے نازل ہوئی اور یہ کفار و مشرکین کے ساتھ تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کے متعلق فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ دراصل کفار سے قطع تعلقی کی وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور ظالمانہ روش ہے، اس لیے مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کے درمیان فرق کرنا ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کفار کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ احسان کے برتاؤ میں انہیں تحائف دینا بھی شامل ہے۔ اس کی بہترین تشریح آئندہ احادیث سے ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو لوگ تم سے دین کے بارے میں لڑے نہیں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے انہوں نے نکالا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف کرنے سے تمہیں نہیں روکتا “۔ اس آیت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ مشرکوں اور کافروں سے دنیاوی اخلاق اور سلوک منع نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو ریشمی حلہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: آپ اس حلے کو خرید لیں۔ تاکہ جمعے کے دن، نیز جب آپ کے پاس وفد آئے تو اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‘‘ پھر (ایسا ہوا) کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے چند حلے لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک حضرت عمر ؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: میں اس کو کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے اس کے متعلق جو کچھ فرمانا تھا، فر چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا۔ بلکہ تم اسے فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ یا کسی اور کو پہنادو۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ میں رہتا تھا اور ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حلہ، قمیص، چادر اور تہ بند پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر کسی چیز میں ذاتی برائی نہیں ہے تو وہ مطلق طور پر حرام نہیں ہوتی۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں تو انہیں تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی حلہ اپنے مشرک اخیافی یا رضاعی بھائی کو بطور تحفہ بھیجا تاکہ اس میں اسلام کے متعلق کوئی رغبت پیدا ہو اور وہ کفر و شرک کی غلاظت سے پاک ہو جائے، چنانچہ روایات میں ہے کہ وہ اس کے بعد مسلمان ہو گیا تھا، اس کا نام عثمان بن حکیم اور اس کی ماں کا نام خیثمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا جو لعین ابو جہل کے چچا کی بیٹی تھی۔ (فتح الباري:287/5)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ تمھیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارےگھروں سے نہیں نکالا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر نے کہ عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک شخص کے یہاں ایک ریشمی جوڑا بک رہا ہے۔ تو آپ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ یہ جوڑا خرید لیجئے تاکہ جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آئے تو آپ اسے پہنا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس بہت سے ریشمی جوڑے آئے اور آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھیجا۔ عمر ؓ نے کہا کہ میں اسے کس طرح پہن سکتا ہوں جب کہ آپ خود ہی اس کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمانا تھا، فرماچکے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ تم اسے بیچ دو یا کسی (غیرمسلم) کو پہنادو۔ چنانچہ عمر ؓ نے اسے مکے میں اپنے ایک بھائی کے گھر بھیج دیا جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ مشرکین کو ہدیہ دیا بھی جاسکتا ہے۔ اسلام نے دنیاوی معاملات میں اپنوں اور غیروں کے ساتھ ہمیشہ رواداری و اشتراک باہمی کا ثبوت دیا ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ سے عیاں ہے کہ مسلمان جس ملک میں گئے، تمدن اور معاشرت میں وہاں کی قوموں میں خلط ملط ہوگئے۔ جس زمین پر جاکر بسے اس کو گل و گلزار بنادیا۔ کاش! معاندین اسلام ان حقائق پر غور کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Umar saw a silken cloak over a man for sale and requested the Prophet (ﷺ) to buy it in order to wear it on Fridays and while meeting delegates. The Prophet (ﷺ) said, "This is worn by the one who will have no share in the Hereafter." Later on Allah's Apostle (ﷺ) got some silken cloaks similar to that one, and he sent one to 'Umar. 'Umar said to the Prophet (ﷺ) "How can I wear it, while you said about it what you said?" The Prophet (ﷺ) said, "I have not given it to you to wear, but to sell or to give to someone else." So, 'Umar sent it to his brother at Makkah before he embraced Islam.