باب : عام دستور کے مطابق کسی نے کسی شخص سے کہا کہ یہ لڑکی میں نے تمہاری خدمت کے لیے دے دی تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: It is permissible if somebody says, "I give this slave-girl to you for your service. ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مقصود امام بخاری کا حنفیہ پر رد کرنا ہے کہ لونڈی میں تو وہ کلام خاص عاریت پر محمول ہوگا اور کپڑے میں ہبہ پر۔ یہ ترجیح بلامرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے۔ بعضوں نے کہا وان قال کسوتک ہذا الثوب یہ الگ کلام ہے۔ بعض الناس کا مقولہ نہیں ہے۔
2635.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ہمراہ جب ہجرت کی تو اہل مصر نے آپ کو ہاجرہ دے دی۔ حضرت سارہ نے واپس آکر حضرت ابراہیم ؑ سے کہا: آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو ذلیل و خوار کیا اور اس نےایک لڑکی خدمت کے لیے دی ہے۔‘‘ ابن سیرین نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اس نے سارہ کو ہاجرہ بطور خدمت دی۔‘‘
تشریح:
(1) شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں: اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی کہے: ’’میں نے یہ لونڈی تجھے خدمت کے لیے دی ہے۔‘‘ تو اس کا مقصد لونڈی کی خدمت گزاری ہبہ کرنا ہے، اس کی ذات ہبہ کرنا نہیں کیونکہ لفظِ اخدام، اس کے مالک بن جانے کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’میں نے تجھے یہ مکان رہنے کے لیے دیا تو اس کا مقصد مکان سے نفع پہنچانا ہے مکان کا مالک بنانا نہیں۔‘‘ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کہا: ’’میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا۔‘‘ تو اس سے ہبہ مراد ہو گا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر قرینہ عرف عام پر دلالت کرتا ہے تو معنی عرف عام کے مطابق متعین کیے جائیں، بصورت دیگر دونوں مقام پر لغت کے مفہوم کے مطابق عمل ہو گا۔ اگر کسی قوم میں اخدام کے معنی ہبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کوئی شخص مطلق طور پر اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اور اس کا مقصد مالک بنانے کا ہے تو یہی معنی مراد ہوں گے، اور جو شخص ہر حال میں اس سے عاریت مراد لیتا ہے وہ اس متفق علیہ موقف کی مخالفت کرتا ہے۔ (فتح الباري:303/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2543
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2635
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2635
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2635
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
احکام کا دارومدار عرف پر ہے، مثلاً: اگر کوئی کہے کہ میں نے اس لونڈی کو تمہاری خدمت میں دیا، تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو لوگوں میں معروف ہو گا۔ اگر معاشرے میں یہ الفاظ تملیک یا ہبہ کے لیے ہیں تو یہ ہبہ ہو گا۔ اگر عرف عام میں اس سے عاریت مراد لی جاتی ہے تو وہی مطلب لیا جائے گا، یعنی ایک بات معروف معنی میں لی جائے گی۔ اس کے معنی متعین کرنا صحیح نہیں کہ اس سے مراد صرف عاریت ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں اس کا مفہوم کچھ اور لیا جاتا ہے تو عاریت کے معنی کیونکر صحیح ہو سکتے ہیں، اسی طرح كِسوة کا مفہوم ہبہ کے لیے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ) "(اگر تم اپنی قسم توڑ دو) تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو درمیانے درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنانا ہے۔" (المائدۃ89:5) یعنی مسکینوں کو کھانے یا کپڑوں کا مالک بنا دیا جائے۔ بہرحال بعض اوقات شرعی احکام میں عرف عام کو ملحوظ رکھنا ہو گا، اپنی طرف سے کوئی معنی متعین کر دینا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم
مقصود امام بخاری کا حنفیہ پر رد کرنا ہے کہ لونڈی میں تو وہ کلام خاص عاریت پر محمول ہوگا اور کپڑے میں ہبہ پر۔ یہ ترجیح بلامرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے۔ بعضوں نے کہا وان قال کسوتک ہذا الثوب یہ الگ کلام ہے۔ بعض الناس کا مقولہ نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ہمراہ جب ہجرت کی تو اہل مصر نے آپ کو ہاجرہ دے دی۔ حضرت سارہ نے واپس آکر حضرت ابراہیم ؑ سے کہا: آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو ذلیل و خوار کیا اور اس نےایک لڑکی خدمت کے لیے دی ہے۔‘‘ ابن سیرین نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اس نے سارہ کو ہاجرہ بطور خدمت دی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں: اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی کہے: ’’میں نے یہ لونڈی تجھے خدمت کے لیے دی ہے۔‘‘ تو اس کا مقصد لونڈی کی خدمت گزاری ہبہ کرنا ہے، اس کی ذات ہبہ کرنا نہیں کیونکہ لفظِ اخدام، اس کے مالک بن جانے کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’میں نے تجھے یہ مکان رہنے کے لیے دیا تو اس کا مقصد مکان سے نفع پہنچانا ہے مکان کا مالک بنانا نہیں۔‘‘ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کہا: ’’میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کے لیے دیا۔‘‘ تو اس سے ہبہ مراد ہو گا۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر قرینہ عرف عام پر دلالت کرتا ہے تو معنی عرف عام کے مطابق متعین کیے جائیں، بصورت دیگر دونوں مقام پر لغت کے مفہوم کے مطابق عمل ہو گا۔ اگر کسی قوم میں اخدام کے معنی ہبہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کوئی شخص مطلق طور پر اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اور اس کا مقصد مالک بنانے کا ہے تو یہی معنی مراد ہوں گے، اور جو شخص ہر حال میں اس سے عاریت مراد لیتا ہے وہ اس متفق علیہ موقف کی مخالفت کرتا ہے۔ (فتح الباري:303/5)
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا مطلب صرف عاریت ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی نے کہا کہ میں نے تمھیں یہ لباس پہنایا تو اسے ہبہ سمجھا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم ؑ نے سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو انہیں بادشاہ نے آجر کو (یعنی ہاجرہ کو) عطیہ میں دے دیا۔ پھر وہ واپس ہوئیں اور ابراہیم سے کہا، دیکھا آپ نے اللہ تعالیٰ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ایک لڑکی خدمت کے لیے بھی دے دی۔ ابن سیرین نے کہا، ان سے ابوہریرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے کہ بادشاہ نے ہاجرہ کو ان کی خدمت کے لیے دے دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Prophet (ﷺ) Abraham migrated with Sarah. The people (of the town where they migrated) gave her Ajar (i.e. Hajar). Sarah returned and said to Abraham, "Do you know that Allah has humiliated that pagan and he has given a slave-girl for my service?"