باب : اگر ایک شخص دوسرے کے نیک عادات و عمدہ خصائل بیان کرنے کے لئے اگر صرف یہ کہے کہ ہم تو اس کے متعلق اچھا ہی جانتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: If a person attests the honouroable record of a witness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔ تعدیل اور تزکیہ کے معنی کسی شخص کو نیک اور سچا اور مقبول الشہادۃ بتلانا۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ الفاظ تعدیل کے لیے کافی نہیں ہیں۔ جب تک صاف یوں نہ کہے کہ وہ اچھا شخص ہے اور عادل ہے۔ اسلام نے مقدمات میں بنیادی طور پر گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیوں کہ مقدمات میں فیصلے کی بنیاد گواہ ہی ہوتے ہیں۔ گواہوں کی تعدیل کے لیے ایک تو یہی راستہ ہے کہ حاکم کی عدالت میں کوئی معتمد آدمی اس گواہ کی عدالت اور نیک چلنی کی گواہی دے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کے خفیہ آدمی اس گواہ کے متعلق پوری معلومات حاصل کرکے حکومت کو مطلع کریں۔ گواہی میں جھوٹ بولنے والوں کی برائیوں میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیاگیا ہے۔
2637.
حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ ، سعید بن مسیب ؒ ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا : میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں جسے گھر کی پالتو بکری آکر کھاجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسے شخص کے متعلق کون مجھ سے عذر خواہی کرے گاجو میری بیوی کے متعلق مجھے اذیت پہنچاتا ہے؟اللہ کی قسم! میں نے اپنی بیوی کے متعلق خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔ اور انھوں نے اس سلسلے میں جس شخص کا ذکر کیا ہے اس میں بھی سوائے خیر کے میں اور کچھ نہیں جانتا۔‘‘
تشریح:
(1) تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔ یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔ اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔ اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔ ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔ دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔ حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2545
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2637
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2637
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2637
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ معلق روایت اسی باب میں آئندہ موصولاً بیان ہوئی ہے۔
یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔ تعدیل اور تزکیہ کے معنی کسی شخص کو نیک اور سچا اور مقبول الشہادۃ بتلانا۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ الفاظ تعدیل کے لیے کافی نہیں ہیں۔ جب تک صاف یوں نہ کہے کہ وہ اچھا شخص ہے اور عادل ہے۔ اسلام نے مقدمات میں بنیادی طور پر گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیوں کہ مقدمات میں فیصلے کی بنیاد گواہ ہی ہوتے ہیں۔ گواہوں کی تعدیل کے لیے ایک تو یہی راستہ ہے کہ حاکم کی عدالت میں کوئی معتمد آدمی اس گواہ کی عدالت اور نیک چلنی کی گواہی دے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کے خفیہ آدمی اس گواہ کے متعلق پوری معلومات حاصل کرکے حکومت کو مطلع کریں۔ گواہی میں جھوٹ بولنے والوں کی برائیوں میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیاگیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؒ ، سعید بن مسیب ؒ ، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی ؓ اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ ؓ نے کہا : میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں جسے گھر کی پالتو بکری آکر کھاجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسے شخص کے متعلق کون مجھ سے عذر خواہی کرے گاجو میری بیوی کے متعلق مجھے اذیت پہنچاتا ہے؟اللہ کی قسم! میں نے اپنی بیوی کے متعلق خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔ اور انھوں نے اس سلسلے میں جس شخص کا ذکر کیا ہے اس میں بھی سوائے خیر کے میں اور کچھ نہیں جانتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔ یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔ اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔ اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔ ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔ دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔ حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔
ترجمۃ الباب:
اس کے تحت حدیث افک بیان کی۔ نبی ﷺ نے جب اس بارے میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا: ان کے متعلق ہم خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا ، کہا ہم سے ثوبان نے بیان کیا اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، انہیں عروہ ، ابن مسیب ، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ نے عائشہ ؓ کی حدیث کے متعلق خبر دی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ نے علی اور اسامہ ؓ کو اپنی بیوی (عائشہ ؓ) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا ، کیو ں کہ آپ پر اب تک (اس سلسلے میں) وحی نہیں آئی تھی ۔ اسامہ ؓ نے تو یہ کہا کہ آپ کی زوجہ مطہرہ (عائشہ ؓ) میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے ۔ اور بریرہ ؓ (ان کی خادمہ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جاسکے ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نوعمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جاکے سو رہتی ہے اور بکری آکر اسے کھالیتی ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے (تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد) فرمایا کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے ۔ قسم اللہ کی! میں نے اپنے گھر میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ۔
حدیث حاشیہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔ جس میں آنحضرتﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔آخر اس بارے مبں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے ۔ امام بخاری ؒ نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔ اس الزام کا بانی عبد اللہ بن ابی منافق مردود تھا جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔ الزام ایک نہابت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل ؓکے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔ یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa bin Al-Musayyab, Alqama bin Waqqas and Ubaidullah bin Abdullah (RA): About the story of 'Aisha (RA) and their narrations were similar attesting each other, when the liars said what they invented about 'Aisha (RA), and the Divine Inspiration was delayed, Allah's Apostle (ﷺ) sent for 'Ali and Usama to consult them in divorcing his wife (i.e. 'Aisha (RA)). Usama said, "Keep your wife, as we know nothing about her except good." Buraira said, "I cannot accuse her of any defect except that she is still a young girl who sleeps, neglecting her family's dough which the domestic goats come to eat (i.e. she was too simpleminded to deceive her husband)." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Who can help me to take revenge over the man who has harmed me by defaming the reputation of my family? By Allah, I have not known about my family-anything except good, and they mentioned (i.e. accused) a man about whom I did not know anything except good."